کالم

سی پیک کی اپ گریڈیشن کا آغاز

وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ چین کو سی پیک کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے دونوں ملکوں میں مکمل اتفاق کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے ، حقیقت یہ ہے سی پیک منصوبہ کے پس منظر میں پاکستان اور چین کے درمیان موجود پائیدار شراکت داری ہر گزرتے دن کےساتھ وسعت اختیار کررہی ہے، پاکستان اور چین کی حد تک یہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ملک سیاسی، سکیورٹی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات سمیت مختلف شعبوں میں مزیدتعاون بڑھانے کے خواہشمند ہیں، دونوں پڑوسی ملکوں کی دوستی کئی دہائیوں پر محیط ہے ، قابل زکر یہ ہے کہ علاقائی اور عالمی سطح پر کئی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں مگر پاک چین دوستی میں رتی برابر فرق نہ آیا یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کے حالیہ دورہ چین کے موقعے پر چینی صدر نے برملا کہا کہ پاکستان کی علاقائی سالمیت اورقومی سلامتی کی حمایت ہمیشہ جاری رہے گی جبکہ اس موقعے پر شہبازشریف کا دوٹوک اندازمیں کہنا تھا کہ اپنے ہاں چینی شہریوں، منصوبوں اور اداروں کی حفاظت یقینی بنائیں گے بتایا جارہا ہےکہ سی پیک کے دوسرے مرحلہ کے تحت پائیدار ترقی، خصوصی اقتصادی زونز ، صنعتوں، آئی ٹی، کانوں اور معدنیات، زراعت اور متبادل توانائی کے شعبوں میں تعاون کو ترجیح دی جائے گی دراصل چین پاکستان کو ایسا ملک دیکھنے کا خواہشمند ہے جو معاشی ہی نہیں سیاسی اعتبار سے بھی مثالی کہلائے ، پاک چین حالیہ مذاکرات کی ایک اور خاص یہ بھی رہی کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی خصوصی طورپراس میں شریک ہوئے بلاشبہ موجودہ حکومت میں سیاسی اور عسکری قیادت نہ صرف ایک پیج پر ہے بلکہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے بھی پورے اخلاص کے ساتھ کوشاں ہے، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کا چین میں جس باوقار انداز میں استقبال کیا گیا یقینا اسے بے مثال کہا جاسکتا ہے، بیجنگ میں جب شہبازشریف عظیم عوامی ہال پہنچے تو چین کے وزیراعظم لی چیانگ نے ان کا پرتباک استقبال کیا اس موقعے پر شہباز شریف کی نیشنل پیپلز کانگریس کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ژاو لیجی سے ملاقات ہوئی وزیر اعظم پاکستان کے چینی وزیراعظم لی چیانگ سے وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئےجن میں ایک دوسرے کی غیر متزلزل حمایت کا بھرپور انداز میں اعادہ کیا گیا ۔ وزیراعظم پاکستان کو چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا ۔ شہبازشریف اور چینی صدر شی جن پنگ کی طویل ملاقات میں ان تمام امور پر غور کیا گیا جس میں سی پیک کے منصوبے بروقت انداز میں تکمیل کیے جاسکیں ، دونون رہنما سی پیک کی اپ گریڈیشن اور دوسرے مرحلے میں ترقیاتی منصوبے آگے بڑھانے پر متفق ومتحد نظر آئے، اسی ملاقات میں علاقائی اورعالمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ افغانستان، فلسطین اورجنوبی ایشیا بشمول مقبوضہ کشمیرکی صورتحال پر بھی تفصیل سے گفتگو کی گئی۔ اس موقعے پردونوں رہنماوں نے نے ایک دوسرے کے بنیادی دلچسپی کے امور پر اپنی دیرینہ حمایت کا اعادہ کیا۔ اس میں دوآرا نہیں کہ سی پیک پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے ، حوصلہ افزا یہ ہے کہ پاکستان چین کی سماجی واقتصادی ترقی سے سیکھنے کے لیے کوشاں ہے ۔پاکستان سمجھتا ہے کہ چین نے جس انداز میں معاشی اہداف حاصل کیے وہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے مشعل راہ بن سکتے ہیں، پاک چین گہرے تعلقات کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کی اہم علاقائی اور عالمی مسائل کے حوالے سے یکساں پالیسی ہے ، مثلا پاکستان اور چین خواہشمند ہیں کہ
کشمیر جیسے دیرینہ تنازعہ کو بات چیت کے زریعے حل کیا جائے ، دونوں دوست ملک یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ افغانستان میں تعمیر وترقی یا ایسا سفر شروع ہو جو بالاآخر افغان عوام کی مشکلات میں نمایاں کمی کرسکے۔سچ تو یہ ہے کہ سی پیک کا منصوبہ جنوبی ایشیائی ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ اس انداز میں منسلک کرسکتا ہے جو معاشی ہی نہیں سیاسی تنازعات حل کرنے میں معاون کہلائے، اب سی پیک کے دوسرے مرحلہ کے تحت پائیدار ترقی، خصوصی اقتصادی زونز، صنعتوں، آئی ٹی ، کانوں اور معدنیات، زراعت اور متبادل توانائی کے شعبوں میں تعاون کو ترجیح دی جائے گی، اس پس منظر میں یہ عالمی معاشی ماہرین کی یہ پیشنگوئی نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ مستقبل جنوبی ایشیا کا ہے ،آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ عالمی سطح پر طاقت کا توازن اب ایشیا کی جانب جھک رہاہے، دراصل خطے میں چین ہی وہ واحد ملک ہے جو علاقائی سطح پر دو طرفہ تعاون کے فروغ کی پالیسی پر کاربند ہے، یہ بھی کوئی راز نہیں کہ چین اور بھارت کے درمیان مختلف تنازعات بارے نئی دہلی کی پالیسی خطے میں امن اور ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے ، ہم سب جانتے ہیں کہ بھارت چین کے ساتھ مقابلے کی پالیسی پر گامزن ہے ، نئی دہلی امریکہ سمیت مغربی ملکوں کو تسلسل ک ساتھ یہ باور کروا رہا ہے کہ اگر اہل مغرب چین کو عالمی طاقت بننے سے روکنا چاہتا ہے تو پھر نئی دہلی کی سیاسی ، سفارتی اور معاشی میدان میں بھرپور مدد کی جائے، اس کے برعکس پاکستان اور چین دونوں کی خواہش ہے کہ بھارت ایک زمہ دار ملک کا کردار ادا کرتے ہوئے تنازعات کو بات چیت کے زریعے حل کرنے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے خطےکی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے