آ ج کے دور مےں سوشل مےڈےا نہ صرف دوست احباب ، خاندان بلکہ پرو فےشنل نےٹ ورکنگ، معا شرتی مسائل نےز رائے عامہ کو اجاگر کرنے اور اےک بڑے پےمانے پر سامعےن و ناظرےن تک ان کی دلچسپی کے مطابق معلومات پہنچانے کا اےک نہایت ہی موثر ذرےعہ بن گےا ہے ۔ آئی سی بی ، جی سےکس سے بحیثیت استاد اپنے کےرئر کا آغاز کرنے اور ہنوز اسی شعبے سے منسلک ہونے کی وجہ سے شعبہ تعلےم کے متعلق اٹھائے گئے اقدامات بالخصوص مےری دلچسپی کا محورو مرکز ہےں۔ آئے روز سوشل مےڈےا کی بدولت وزارت تعلےم اور وفاقی نظامت تعلےم کی طرف سے لےے گئے اصلاحی پروگرامات نظر سے گزرتے رہتے ہےں۔ اس سلسلے مےں وفاقی سےکرےڑی جناب محی الدےن وانی کا اےک کلپ بھی سننے کا موقع ملا۔ اساتذہ کے متعلق ان کے جذبات نہ صرف قابل تحسےن ہےں بلکہ سرکاری اداروں مےں تعلےمی معےار کو خوب سے خوب تر بنانے کےلئے ان کی کاوشےں ےقےنا قابل تعرےف ہےں۔ گزشتہ چند ماہ سے وفاق کے سرکاری سکول و کالجز کے اساتذہ کو سٹےٹ بنک آف پاکستان اور اےشےن ڈو ےلپمنٹ بنک کے اشتراک سے ےکے بعد دےگرے دو دن کی ٹریننگ کا سلسہ جاری رہا جسے مستقبل قرےب مےں بچوں کو پڑھانے کااہتمام کےا جائے گا۔ فنانشل لٹرےسی پرچار کتب پر مشتمل مذکورہ کورس دراصل اےک خاندان کی کہانی ہے۔ اولاً اس کورس مےں نہایت ہی خوبصورت پےرائے مےں بچوں کو ےہ سکھانا مقصود ہے کہ اےک ہےں خواہشات اور اےک ہےں ضرورےات ۔ سب سے پہلے خواہشات اور ضرورےات کے فرق کو مثالوں سے واضح کرنا اور بعد ازاں انھےں اس قابل بنانا ہے کہ وہ ضرورےات کو پورا کرنے کےلئے خواہشات کو کےسے کو کنٹرول کرےں۔ در حقےقت معاشرے کے بہت سے مسائل خواہشات کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے ہی جنم لےتے ہےں۔کورس کا ےہ حصہ دراصل چادر دےکھ کر پاو¿ں پھےلاو¿ کے مصداق ہے۔کورس کا دوسرا پہلو بچوں کو وعدہ وفا کرنے کا درس دےتا ہے چاہے لےن دےن ہو ےا کوئی بھی کاروبار زندگی۔ مثلاً آگر آپ نے کسی سے اپنے مال کا سودا کےا اور بعد مےں کسی دوسرے نے زےادہ پےسوں کی آفر کر دی تو آپ نے زےادہ پےسوں کے لالچ مےں آنے کی بجائے اپنے پہلے سے کےے گئے وعدے کو وفا کرنا ہے چاہے اس مےں بظاہر نقصان ہی کےوں نہ ہو۔ کورس کا ےہ حصہ قرآن و حدےث کی ان تعلےمات کا درس دےتا ہے جس مےں بار ہا ےہ فرماےا گےا: وعدوں کا حساب ہو گا۔جو عہد کو پورا نہےں کرتا اس کا تو کوئی دےن ہی نہےں جس خوبصورت انداذ مےں ےہ کورس مرتب کےا گےا بلا شبہ قابل تعرےف ہے۔ اس کورس کو پڑھ کر مجھے شدت سے ےہ احساس ہوا کہ اسے ہمارے تعلےمی نصاب کا لازمی حصہ ہونا چاہے ۔ وےسے تو ہر مضمون کی اپنی اہمےت ہوتی ہے چاہے کم ہو ےا زےادہ۔ مےری رائے مےں وقت اور معاشرے کی ضرورےات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی کم اہمےت کے حامل مضمون سے اسے بدل دےنا چاہے۔ جےسے ہمارے دور مےں فارسی پڑھائی جاتی تھی بعد ازاں اسے عربی سے بدل دےا گےا۔ اسی طرح اےگرو اور جغرافےہ جےسے مضامےن شائد ہی آج کہےں پڑھا ئے جا رہے ہوں۔ نہاےت ہی اہمےت کا مضمون فانشل لٹرےسی بڑی آسانی سے اےسے ہی کسی مضمو ن کی جگہ لے سکتا ہے ۔فانشل لٹرےسی کے اس کورس نما مضمون مےں اےک اور درس دےاگےا، وہ ےہ کہ کسی بھی کام کو کامےاب بنانے کےلئے اضافی محنت کا صلہ ضرور دےنا چاہے۔ نہایت ہی اہمےت کے حامل اس سبق کی روشنی مےں، بر ملا مجھے ےہ کہنے دےجےے کہ ےہ کورس جن کو کراےا گےا اور جنہوں نے آگے پڑھانا ہے ےعنی اساتذہ وہ ہمےشہ سے ہی اضافی محنت کا حقدار تو دور کی بات، اس کا تقاضا کرنے پر بھی مورد الزام ٹھرائے جاتے ہےں۔ بحےثےت والدےن مےں چونکہ وزارت تعلےم و وفاقی نظامت تعلےم کو فالو کرتا رہتا ہوں ۔ ان دنوں اےک طرف اساتذہ کی بے چےنی اور دوسری طرف اساتذہ کا تعاون نہ کرنے کی پوسٹ دےکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ۔ قرآن و حدےث سے ثابت ہے کہ تمام ارواح کو اےک ہی دن پےدا کےا گےا۔ والدےن ان ارواح کو آسمانوں سے زمےن پر لانے کا باعث بنتے ہےںجبکہ ہمارے روحانی والدےن ےعنی اسا تذہ ہمےں واپس زمےن سے آسمان کی بلندےوں تک لے جاتے ہےں اور آسمان کے ستاروں مےں سے اےک ستارہ بنا دےتے ہےں۔آج اعلیٰ عہدوں پر فائز شائد اس ہستی کو بھول گئے جس نے اسے کبھی انگلی پکڑ کر لکھنا سکھاےا۔ آج کا سب سے مظلوم طبقہ استاد ہے۔ چاہے تو اس سے مردم شماری کرا لےں، جب جی چاہے الیکشن ڈےوٹےز مےں ذلےل کرےں اور جب دل چاہے کوئی پھبتی کس دےں۔ مےں احکام بالا بالخصوں استاد احسان شناس وفاقی سےکرےڑی محی الدےن وانی کی توجہ اساتذہ کو درپےش چند اےک مندرجہ ذےل مسائل کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا جن کی نشان دہی آے روز سوشل مےڈےا کی زےنت بنتے ہےں۔ اولاً : اساتذہ کو چھوڑ کر تمام سرکاری ملازمےن کا سال مےں اڑتالےس(۸۴) چٹھےاں بطور رخصت خاص ان کے اکاو¿نٹ مےں جمع ہوتی ہےں جسے وہ کسی بھی وقت اےل اےف پی ےا ان کےش پے منٹ لے سکتے ہےںجبکہ اساتذہ کو گرمےوں کی تعطےلات کی بدولت صرف بارہ (۲۱) چٹھےاں بطور رخصت خاص دی جا تی ہےں۔ اگر گرمےوں کی تعطےلات مےں بھی اساتذہ کو کام سونپنا ہی ہے تو انھےں بھی آن ڈےوٹی تصور کرتے ہوئے باقی سرکاری ملازمےن کی طرح سال مےں اڑتالےس (۸۴) چٹھےاں بطور رخصت خاص دی جائےں ۔ دوئم: جن اساتذہ کی محنت کی بدولت کسی ادارے کا بورڈرزلٹ اچھا آئے تو محض اےک تعرےفی سرٹےفکےٹ(بسا اوقات وہ بھی نہےں ہوتا) کے بجائے کےا ہی اچھا ہو کہ پروموشن پالےسی مےں اس کی کوئی اہمےت رکھ دی جائے ۔ پروموشن پالےسی مےں اس کی اہمےت ےقےنا اساتذہ مےں محنت کا پھل مےٹھا کا مصداق اےک صحتمندانہ مسابقت کو پروان چڑھانے کا باعث بنے گی۔ ثالثا:حال ہی مےں ہفتہ کے دن اصلاحی ےا رےمےڈےل کلاسز کا اجرا ہوا، اگر ان مضامےن جےسا کہ رےاضی، سا ئنس اور انگلش کے اساتذہ کو بلانا ضروری ہے تو اس اضافی محنت کا صلہ بطور اضافی رخصت ےا اےک بنےادی تنخواہ کی صورت ادا کر نا چاہےے۔ کہےں اےسا نہ ہواساتذہ ےہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ ےہ مضامےن پڑھ کر انہوں نے گوےا کوئی جرم کےا ہو۔ ےہ خےال بھی رہے آپ اساتذہ کو زبردستی کلاسز مےں بھےج تو سکتے ہےں مگرپڑھانے پر مجبور تو نہےں کر سکتے۔اگر ارباب اقتدار واقعی ان سرکاری سکول و کالجز کو در پےش مسائل جاننا اور حل کرنا چاہتے ہےں تو ےکطرفہ فےصلوں کے بجائے اساتذہ اور والدےن کو براہ راست آن بورڈ لےا جائے۔اساتذہ کی احساس محرومی اور ان کو درپےش مسائل ہی در اصل غےر محسوس طرےقے سے طلبہ مےں منتقل ہوتے ہےں جن کا بر وقت تدارک کر کے پرےشانےوں مےں گھری اس قوم کو ماےوسےوں سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔جرمنی اور جاپان نے ےہ ثابت کر دےا اگر اپنی قوم کو کامےابےوں کی بلندےوں پر دےکھنا چاہتے ہو تو سب سے باعزت اور معتبر اپنے اساتذہ کو بنا دو۔