عہد حاضر ےقےناً سائنس اور ٹےکنالوجی کی ترقی کے اعتبار سے اتنا شاندار ہے کہ اس کی نظےر ملنا ممکن نہےں ۔آج انفارمےشن ٹےکنالوجی اور کمپےوٹر کی صنعت اس حد تک ترقی کر چکی ہے کہ انسان جس کا کبھی خواب ہی دےکھ سکتا تھا ۔ اس ترقی کے پےچھے اکتساب علم کا جذبہ ہی نہاں ہے ۔آج ہم مےڈےکل ،زراعت ،صنعت اور انفارمےشن ٹےکنالوجی کے مےدان مےں جو انقلاب دےکھ رہے ہےں اس کا تعلق تعلےم اور تعلےمی نظام ہی سے ہے ۔اقوام متحدہ کے ادارے اور حکومتےں اپنے لےول پر کوشش کر رہی ہےں کہ خواندگی کی شرح مےں اضافہ ہو لےکن بڑھتی ہوئی غربت ،معاشرتی رسم و رواج اور شرح پےدائش مےں اضافہ اےسے عوامل ہےں جو کلی خواندگی کے خواب کو شرمندہ تعبےر ہونے سے روکتے ہےں ۔ ملک کو تعلےم اور صحت کے شعبوں مےں درپےش چےلنجوں سے نمٹنے کےلئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ سکول جانے کی عمر کے 3کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر ہےں ۔ےہ تشوےشناک تعداد ہے جس پر ہمےں غور کرنے کی ضرورت ہے ۔بلاشبہ سکول جانے کی عمر مےں کروڑوں بچوں کا سکول کی ابتدائی تعلےم سے محروم رہ جانا تشوےشناک ہی نہےں اےک قومی المےہ ہے جس کا تدارک ہر حال مےں کےا جانا چاہےے ۔ہمارے بارے مےں جو رپورٹس بےن الاقوامی ادارے شائع کر رہے ہےں ان سے ہمارے حکمرانوں کی بے توجہی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ےونےسف کے اعدادوشمار ہےں کہ پاکستان مےں دو کروڑ اٹھائےس لاکھ بچے سکول نہےں جاتے ۔ ےہ تعداد سکول مےں داخلے کی عمر کے بچوں کا 44فےصد ہے جبکہ بنگلہ دےش مےں تقرےباً 43لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہےں اور ان کو نظام مےں لانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہمارے دےگر ہمساےہ ممالک بھی ہمےں کوسوں پےچھے چھوڑ گئے ،نہ صرف انہوں نے تعلےم کے شعبے مےں سرماےہ کاری کی ہے بلکہ انہوں نے تعلےم کو ترقی کا زےنہ بناےا ہے کہ سماجی ترقی بھی ہو اور ہنر مند ،با صلاحےت افرادی قوت بھی پےدا ہو جو جدےد مشےنوں کو چلاتی ہو ۔ہمارے ہاں اکابرےن اختےار نے تو صرف اپنے خاندان ، دوستوں اور ہرکاروں کو مال دار بنانے پر ہی توجہ دی ہے ۔ہمارے ہاں کرپشن ،سےاسی عمل دخل ،جعلی ڈگرےاں اور بد انتظامی کے ساتھ تعلےمی شعبے ،نوکر شاہی ہی غالباً ہم پلہ ممالک سے کئی گنا بڑی ہے ۔وسائل کا بڑا حصہ تو ےہی نوکر شاہی ہڑپ کر جاتی ہے ۔شہر تو چھوڑےں آج دےہات مےں بھی نجی سکولوں کی تعداد ہر سال بڑھتی جا رہی ہے ۔کم وسائل کے باوجود 60فےصد بچے نجی سکولوں مےں کےوں پڑھ رہے ہےں ؟اس کا جواب سرکاری سکولوں اور کالجوں کے گرتے معےار مےں ہے ۔ملک مےں آج سےاست سےاست کا جو کھےل کھےلا جا رہا ہے کےا اس صورتحال مےں موجودہ حکومت سے ےہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اسے ان کروڑوں بچوں کی فکر ہو گی جو سکول کی ابتدائی تعلےم سے محروم ہےں ۔بچے قوم کا مستقبل ہےں اور حکومت کو اپنے اس مستقبل کی کوئی فکر نہےں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نہ صرف کروڑوں بچوں کی تعلےم کی فکر کرے بلکہ ان کی صحت پر بھی توجہ دے ۔سرکاری سکولوں کا جال بچھاےا جائے ۔ملک مےں تعلےمی اےمرجنسی نافذ کی جائے ۔بچوں کی تعلےم کےلئے ڈےجےٹل اور تمام جدےد ذرائع کو کام مےں لاےا جائے اور بچوں کی تعلےم اور صحت کےلئے خصوصی فنڈز مختص کےے جائےں ۔عالمی منظر نامے کو دےکھےں توپاکستان انتہائی کم شرح خواندگی والے ممالک مےں آتا ہے ۔تازہ ترےن اعدادوشمار کے لحاظ سے پاکستان کے 40فےصد مرد اور 70فےصد خواتےن ناخواندہ ہےں اور اس صورتحال مےں بتدرےج اضافہ ہو رہا ہے ۔وفاقی وزارت تعلےم حکومت پاکستان کے جاری کردہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق خواتےن اور مردوں کی شرح خواندگی 58فےصد ہے جبکہ صرف 26فےصد خواتےن ناخواندہ ہےں ۔خود مختار ذرائع اور تعلےمی ماہرےن کا خےال ہے کہ ےہ اعدادو شمار زےادہ ہےں کہ ناخواندہ افراد مےں ان لوگوں کو بھی شامل کر لےا جاتا ہے جو صرف اپنے دستخط کر سکتے ہےں جبکہ اقوام متحدہ کے ادارے ےونےسےف کے مطابق وہ شخص ناخواندہ ہے جو کسی عبارت کو نہ پڑھ سکے اور نہ سادہ الفاظ مےں اپنا مافی الضمےر لکھ کر بےان کر سکے ۔مزےد ےہ کہ اےک شخص پڑھ سکتا ہے اور لکھ نہےں سکتا تو ناخواندہ قرار پائے گا ۔اگر اےک شخص صرف ہندسے ےا اپنا نام لکھ سکتا ہے ےا مذہبی کلمات ےاد کر لےتا ہے ،پڑھا لکھا قرار نہےں دےا جا سکتا ۔اس کڑی تعرےف کی رو سے پاکستان کی شرح خواندگی کی صورتحال اور بھی گھمبےر ہے ۔بعض قبائلی علاقوں مےں آج بھی تعلےم خصوصاً لڑکےوں کی تعلےم کو مذہبی حوالے سے ناجائز قرار دےنے کا رواج ہے ۔ےہ اسلامی شعائر کو غلط معنی پہنانے کاکھلم کھلا اعلان ہے ۔صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان مےں لڑکےوں کی شرح خواندگی 8فےصد کے درمےان ہے ۔کچھ سرکاری اور غےر سرکاری تنظےموں نے ان علاقوں مےں رسمی اور غےر رسمی ادارے کھولنے کی کوشش کی لےکن مقامی بااثر افراد نے اےسا نہےں ہونے دےا ۔ان کے خےال مےں تعلےم کی ترقی کی وجہ سے علاقے مےں ان کا اثر اور رعب و دبدبہ کم ہونے کا خطرہ ہے ۔شرح آبادی مےں روز افزوں اضافہ بھی شرح خواندگی مےں اضافے کی راہ مےں اےک بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔پاکستان مےں شرح خواندگی مےں اضافے اور سکولوں مےں بچوں کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے حکومت نے اےک پالےسی تو تشکےل دی ہے ۔ملےنےم ترقےاتی پروگرام کے تحت شرح خواندگی 88فےصد ہونی چاہےے تھی جو اب تک صرف58فےصد ہے ۔پاکستان اےجوکےشنل مےنجمنٹ سسٹم کی رپورٹ کے مطابق 5 سے 16 سال تک کل بچوں کا 47فےصد سکولوں سے باہر ہے ۔18وےں ترمےم کے ذرےعے تعلےم کا شعبہ صوبائی حکومتوں کے حوالے کر دےا گےا تھا ۔اس لےے اب ےہ ہر صوبے کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبے مےں تعلےمی اداروں مےں سو فےصد طلباءکی رجسٹرےشن اور حاضری ےقےنی بنائے تا کہ سو فےصد طلباءکی انرولمنٹ اور شرح خواندگی کا ہدف حاصل کےا جا سکے ۔اس ضمن مےں صوبائی وزرائے اعلیٰ اور وزراءتعلےم کو پوری توجہ دےنی چاہےے ۔اس ضمن مےں محکمہ تعلےم کو فعال کےا جائے ۔اس بات کا اعادہ اےک بار پھر کر رہا ہوں کہ سرکاری سکولوں کی تعداد بڑھائی جائے ۔قابل اساتذہ تعےنات کےے جائےں اور ہر علاقے کے لوگوں کو تعلےم کی اہمےت سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے تمام بچوں کو سکول بجھوانے پر آمادہ کےا جائے تا کہ طلباءکی تعداد بڑھ سکے ۔حکومتےں اس کےلئے مکمل پالےسی اختےار کرےں۔اہداف مقرر کےے جائےں اور ان اہداف کے حصول کےلئے طرےق کار وضع کےے جائےں ۔محکمہ تعلےم جس کے ذرےعے اس پالےسی پر عملدرآمد ہونا ہے اس مےں نگرانی اور عملدرآمد کا ہمہ گےر نظام ہو ،کسی جگہ پر کوئی کمزوری ےا جھول نہےں ہونا چاہےے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ناخواندہ طبقوں مےں خواندگی کے فوائد اور ناخواندگی کے نقصانات وضع کےے جائےں ۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی اور قوموں مےں بہتر مقام حاصل کرنے کےلئے شرح خواندگی کو 100 فےصد تک لانا ضروری ہے ۔جمہورےت کا وجود شرح خواندگی مےں اضافے کے ساتھ جڑا ہو ہے ۔اگر جمہورےت کو اس ملک کا نظام ٹھہرانا ہے تو خواندگی کےلئے کوشش کرنا اےسا ہی ہے جےسا بنجر زمےن مےں کھاد اور پانی دےنا ۔