وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ اور آئی جی پولیس پنجاب کی قابلِ تعریف کارکردگی کا ہر وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ اور آئی جی پولیس پنجاب کی قابلِ تعریف کارکردگی کا ہر جانب اعتراف کیا جا رہا ہے جو ان کی دن رات کی محنت کا نتیجہ ہے تاہم ایک نہایت اہم مسئلہ اب بھی عوام کے لیے شدیداذیت اور تکلیف کا باعث بنا ہوا ہے۔ پوری دنیا میں شور کو ایک آلودگی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق مسلسل شور انسان کے اعصاب پر حملہ کرتا ہے اور صحت پر گہرے منفی اثرات چھوڑتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق شور سے بلڈ پریشر ، دل کی بیماریوں، ذہنی امراض ،سماعت میں کمی اور بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں رکاوٹ جیسے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ یہ آلودگی مجموعی ذہنی سکون کو تباہ کر کے انسان کی روزمرہ زندگی کو شدید متاثر کرتی ہے۔لاہور کے ایک کینسر میں مبتلا مریض نے روہانسا انداز میں بتایا کہ پھیری والوں کے لاڈ سپیکروں نے ہمارا جینا دوبھر کر دیا ہے تو اس کی آواز میں صرف ایک فرد کی شکایت نہیں تھی بلکہ اس میں پورے شہر کا درد سانس لے رہا تھا۔ یہ آہ و فغاں صرف لاہور تک محدود نہیں، یہ کہانی پورے صوبہ پنجاب کے ہر محلے، ہر گلی اور ہر بستی کی مشترکہ شکایت بن چکی ہے۔ایک عام صحت مند انسان پر شور کے برے اثرات پڑتے ہیں لیکن جن گھروں میں بزرگ رہتے ہوں، بیمار افراد زیر علاج ہوں یا ذہنی دبا کے مریض موجود ہوں، ان کیلئے شور محض بے چینی نہیں بلکہ اذیت بن جاتا ہے۔ لاہور کے اس مریض کا درد دراصل انہی گھروں کی ترجمانی ہے جہاں ہر روز شور کے یہ ہتھیار سکون پر حملہ کرتے ہیں۔ دو ہزار پندرہ میں پنجاب میں سانڈ ایکٹ بنایا گیا جس میں لاڈ اسپیکر کے استعمال کو واضح طور پر ریگولیٹ کیا گیا۔ اس قانون کے مطابق رہائشی علاقوں میں بے جا آواز بلند کرنا، کاروباری مقاصد کے لیے سانڈ سسٹم چلانا یا لوگوں کی آرام گاہوں میں خلل ڈالنا قابل سزا جرم ہے۔ اس کے بعد 2018 میں لاہور ہائی کورٹ نے ایک واضح اور سخت فیصلہ صادر کیا کہ غیر ضروری آوازوں کو مکمل طور پر کنٹرول کیا جائے اور شہریوں کی نیند اور سکون کو ترجیح دی جائے مگر ان تمام احکامات اور قوانین کے باوجود آج تک پھیری والوں کے لاڈ اسپیکر بند نہ ہو سکے۔ اگر کسی پوش علاقے میں پھیری والا اسپیکر لگا کر چلتا تو شاید لمحوں میں کارروائی ہو جاتی مگر غریب بستیوں اور متوسط محلے اس شور کی مار سالہا سال سے برداشت کر رہے ہیں۔شور کی آلودگی محض ذہنی اذیت کا نام نہیں یہ ایک سماجی مسئلہ بھی ہے۔ رہائشی علاقوں میں غیر ضروری کاروباری سرگرمیاں، بھکاریوں کی آوازیں اور پھیری والوں کے پکارنے کے انداز اور لاڈ سپیکر کے استعمال نہ صرف ماحول کو متاثر کرتے ہیں بلکہ جرائم کے پھیلا میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر رہائشی علاقوں میں غیر قانونی کاروباری سرگرمیوں، اسٹریٹ وینڈرز اور بھیک مانگنے والوں پر عملی طور پر کنٹرول کیا جائے تو جرائم کی شرح میں پچاس فی صد تک کمی آ سکتی ہے۔ صاف ستھرا، منظم اور پرسکون رہائشی ماحول جرائم کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔پنجاب جیسے بڑے صوبے میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ایک جامع، سائنسی اور مستقل بنیادوں پر قائم نظام اپنائے۔ اس مقصد کے لیے سی سی ٹی وی مانیٹرنگ، جدید ڈیسِبل میٹرز، موبائل ریڈار اور کوئیک رسپانس ٹیمیں تشکیل دی جا سکتی ہیں۔نوائس زون میپنگ کی جائے۔ لاہور جیسا شہر آج شور کے اعتبار سے دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شمار ہوتا ہے۔پرانی گاڑیوں کا شور، ہارن، اعلان، تعمیراتی کام، موٹرسائیکلوں کے غیر معیاری سائلنسر اور پھر پھیری والوں کا بے قابو لاڈ اسپیکرز یہ سب مل کر شہر کے ذہنی توازن پر حملہ آور ہیں۔ شہر کی آبادی بڑھ رہی ہے لیکن شور پر کنٹرول کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر اس کے مقابلے میں ہم دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کی طرف دیکھیں تو وہاں رہائشی علاقوں میں لاڈ اسپیکر کا تصور تک موجود نہیں۔پنجاب میں بھی اسی طرز کے نظام کی ضرورت ہے جس میں رہائشی علاقوں کو مکمل شور سے پاک قرار دیا جائے۔ ایسے علاقوں میں نہ کوئی پھیری والا اسپیکر لگا کر داخل ہو، نہ کوئی بھکاری چِلاتے ہوئے اور نہ ہی کوئی کاروباری شخص اونچی آواز میں اعلانات کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ گلی محلوں کی سطح پر شور اور لاڈ اسپیکر استعمال کرنے والوں کے خلاف پولیس ، سی سی ڈی اور متعلقہ اتھارٹی کوئیک ایکشن لیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ شور کی آلودگی کا شکار ہمیشہ وہی لوگ بنتے ہیں جو سب سے زیادہ بے بس ہوتے ہیں مثلا مریض، بزرگ، بچے، ذہنی دبا کے مریض اور غریب آبادیوں کے مکین۔ ایک معاشرے کی تہذیب کا سب سے بڑا امتحان یہی ہے کہ وہ اپنے کمزور افراد کے لیے کیا سہولت فراہم کرتا ہے، ان کے آرام کا کتنا خیال رکھتا ہے اور ان کی خاموش تکلیف پر کتنی توجہ دیتا ہے۔وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف، آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور ، ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ پولیس افسران سے درخواست ہے کہ اس معاملے میں ایک نیا، سخت اور موثر نظام قائم کیا جائے۔ جس طرح ٹریفک مینجمنٹ، صاف پانی، نکاسی آب، تجاوزات کے خلاف آپریشنز ہوتے ہیں، اسی طرح نوائس کنٹرول آپریشن مستقل بنیادوں پر شروع کیا جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے حلقہ انتخاب این اے 123 لاہور کے گرین کیپ اور مضافاتی علاقوں سے پھیری والوں اور بھکاریوں کی شکایات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔اگر آج حکومت، پولیس اور مقامی انتظامیہ سنجیدگی سے اقدامات کرے تو پنجاب کے رہائشی علاقوں کو شور کی آلودگی سے پاک کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔پنجاب کا ہر گھر، ہر گلی اور ہر بستی ایک پرسکون فضا کی مستحق ہے۔ وہ فضا جس میں بزرگ اطمنان سے سو سکیں، مریض سکون سے سانس لے سکیں، بچے بغیر خوف کے پڑھ سکیں۔ صوبہ پنجاب کو شور کی آلودگی سے پاک بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ، آئی جی پولیس پنجاب، پولیس افسران اور جوان اس مسئلے پر خصوصی توجہ دیں۔

