کالم

شیروں کی فوج کا سردار

سب سے پہلے پاکستان، پھر افغانستان

کیا پاکستان میں زبان کی لمبائی کی کوئی قانونی حد مقرر ہے؟ میرا تاثر ہے کہ ایسی کوئی حد سرکاری طور پر مقرر نہیں کی گئی۔اور ستم ظریف کی تحقیق کے مطابق ،ایسا عملًا ممکن بھی نہیں ۔وہ کہتا ہے کہ زبان کے حوالے سے ہمارے یہاں کئی طرح کے تصورات ، اندیشے اور خیالات پائے جاتے ہیں ،ہمارے کلچر میں زبان دراز اور بدزبان ہونا تو گویا عام سی بات ہے۔زبان سے پھر جانا، زبان نکال کر دکھانا، ، زبان سے ذو معنی اشارے کرنا اور زبان دینا گویا معمول کے اعمال شمار ہوتے ہیں۔کبھی کبھی ،کہیں نہ کہیں کوئی زبان کا پکا بھی سامنے آ جاتا ہے ،لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ زبان کو ہمارے یہاں سنبھال کر رکھنے والی چیزوں میں بھی شامل کیا جاتا ہے اور باہم بات چیت میں اپنے مخاطب کو بار بار زبان سنبھال کر رکھنے کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلانا بھی گویا ہمارے یہاں کے آداب گفتگو میں شامل تصور کیا جاتا ہے۔پاکستان میں تلقین اور تبلیغ کا عمل ایک ایسے تیر نیم کش کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ جس کا کوئی متعین ہدف نہیں ہوتا ۔جس معاشرے میں لوگ اپنی بجائے دوسروں کی اصلاح ظاہر و باطن کے متعلق ہمہ وقت فکرمند اور متوحش رہتے ہوں ،وہاں کسی بہتری کی توقع رکھنا کار بے بنیاد ہے ۔ ہمارے دیہی اور قصباتی کلچر میں ننھے بچوں سے انکی توتلی سی زبان میں گالیاں سننا بھی شامل رہا ہے ،سارے لوگ تو نہیں ،لیکن بعضے ننھے بچوں کو کوئی پیچیدہ سی گالی سکھا کر پھر دوستوں اور کبھی مہمانوں کے سامنے سنتے اور ہنسی مذاق کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ ابو لوگوں کی طرف سے ننھے بچوں کی معصومیت کےساتھ یہ مذاق اچھی بات ہر گز نہیں ہے ۔ تھوڑا بڑا ہو کر بچہ بے چارہ نہیں سمجھ پاتا کہ جن گالیوں پر پیار اور پپیاں ملتی تھیں ،اب مار کیوں پڑنے لگی ہے۔ بچوں کے حوالے سے سب سے زیادہ ضروری بات ابو لوگوں کا تعلیم و تربیت یافتہ اور مہذب ہونا ہے ۔ اب بھی نادان ابووں کےلیے یہی مشورہ ہے کہ وہ اپنے پیارے بچوں کی صحیح تربیت کیا کریں ، انہیں کوئی ایسی بات نہ سکھائیں جو بعد میں ان کےلئے مصیبت یا شرمندگی کا باعث بن جائے ۔ ایک سیاستدان کے طور پرریاست کی طرف سے جو لاڈ پیار عمران خان کو میسر آئے ،انہوں نے ان کی حقیقی سیاسی تربیت میں رکاوٹ پیدا کی۔اپنے پیہم جلسوں میں بلا امتیاز سب کو للکارتے جانا، مخالف سیاستدانوں برے برے نام رکھنا ، یہ سب باور کراتا ہے کہ سیاسی اخلاقیات بے خبر ہیں۔بہت سی غلط فہمیوں نے انہیں اپنے بارے میں غلط نتائج کی طرف راغب کیا ہے۔مثال کے طور پر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ آج بھی نوجوان اور نوخیز ہیں، ستر سال سے متجاوز عمر کے اعتبار سے انکی صحت اور چوکسی واقعی مثالی ہے ،لیکن اس کا عقل و شعور سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ وہ یقین کیے بیٹھے ہیں کہ وہ ایک پکار دیں گے اور بائیس کروڑ پاکستانی گھروں سے نکل کر پورے ملک کی زندگی کو معطل کر سکتے ہیں ۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب وہ بڑے ہی ناپختہ اور بچگانہ طریقے سے عامتہ الناس کے مذہبی جذبات سے کھیلنا شروع کرتے ہیں۔ان کو یہ تک پتہ نہیں کہ پاکستان میں پرائمری ، سکینڈری اور ہائر سکینڈری سطح کے نصابات میں انبیا کرام ، سیرت النبیﷺ اور دیگر اہم مذہبی شخصیات کے بارے میں معلومات اور تدریسی مواد ہمیشہ شامل رہا ہے۔چونکہ خود ان کا ساری تعلیمی زندگی کا مدار اسپورٹس سیٹ پر رہا ۔لہٰذا انہیں پاکستانی تدریسی نصابات کے حوالے سے کچھ زیادہ یا کم علم نہیں ہے ۔وہ اپنے ہر مشتعل خطاب میں دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے ملک میں سیرت کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے ایک اتھارٹی قائم کی یہ کوئی کارنامہ نہیں ،بلکہ محض ایک دکھاوے کی طرح کا عمل تھا۔ ایک ناکام ترین اور کسی کارکردگی کے بغیر پونے چار سال تک حکومت کرنے کا کوئی ایک فائدہ بھی نہیں بتا سکتے ۔بس وہ اپنی چائنا میڈ تسبیح کی طرح عامتہ الناس کو بھی گھماتے رہتے ہیں۔پچھلے دنوں قیاس آرائیاں کی گئی تھیں کہ انہوں نے کسی موثر وسیلے کی مدد سے ، کسی نہایت موثر وسیلے کےساتھ ایک ملاقات کی ہے ۔ملاقات میں چونکہ وہ اپنے مطلوبہ مقاصد اور اہداف حاصل نہیں کر پائے ،لہذا،جیسا کہ ان کا ہمیشہ سے یہ دعوی رہا ہے کہ ہر نئے عمل یا حرکت کے بعد وہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہو جاتے ہیں ۔ اسی خطرناکی میں وہ اپنے نادان مداحوں کو یہ سبق پڑھانے لگے کہ؛اگر اگر کوئی فون کر کے آپ کو ڈرائے یا دھمکانے کی کوشش کرے تو ڈرنے اور دھمکنے کی بجائے جوابی طور پر ڈرانا اور دھمکانا شروع کر دیا جائے ۔ اپنے اس مشورے پر خود ہی عمل کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے چکوال کے جلسے میں شی اور گیڈر کی مثالیں ارزاں کرتے ہوئے گویا اپنی حق گوئی کی دھاک بٹھانے کی کوشش کی ہے ۔اس بہادری کا مظاہرہ کرنے کے بعد انہیں توہین عدالت کی فرد جرم کا سامنا تھا،یہاں آکر انہوں نے روسٹرم پر آکر غیر مشروط معافی طلب کرتے ہوئے پیش کش کر دی کہ اگر عدالت کہے تو وہ سیشن جج محترمہ زیبا چودھری صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہوکر معافی مانگنے کےلئے بھی تیار ہیں ۔ اس کے بعد چیف جسٹس کو فرد جرم کی کارروائی کو موخر کرنا پڑا۔البتہ انہوں نے عمران خان کو ہدایت کی کہ وہ ایک بیان حلفی جمع کرائیں اور جو کچھ زبانی کہا ہے ،وہ لکھ کر لائیں۔کوشش تو کی تھی عمران خان نے بات زبانی ہی طے سمجھی جائے ،لیکن عدالت کا حکم تحریری معافی نامے کا تھا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے