گلی میں
skصدا لگا رہا تھا ہے کوئی جو اللہ کے نام پر دے جس نے تمہیں بہت کچھ دیا ہے اسی میں سے مجھے بھی دے اسکی صدا بڑی معنی خیز تھی نہ جانے کسی کے دل کو اس کی بات لگی یا نہیں لیکن میں نے اسے کچھ دیا اور اسکو اس جملے کے بارے میں کریدا جو وہ کچھ مانگنے کےلئے صدا کی صورت میں لگا رہا تھا اس نے مجھے بڑے غور سے دیکھا اور کہا کہ تم نے کبھی اپنے آپ پر غور کیا ہے جمے ہوئے خون سے گوشت کا لوتھڑا اور پھر انسان کا بننا کتنی باریکیاں ہیں اسکی ساخت میں آنکھ ہی کو لے لو اسکی ساخت اور بینائی ساری کائنات انہی دو آنکھوں سے دل اور دماغ میں اتر جاتی ہے کیسے کیسے مناظر ہیں جو آنکھوں والے ہی دیکھتے ہیں اکثریت نہ تو زیادہ اثر لیتی ہے اور نہ ہی کبھی اپنے ہونے پر سوچتی ہے بس چل رہے ہیں سبھی سسٹم ۔ میں اس فقیر کی باتیں سن کر دل میں سوچنے لگا یہ عام بندہ نہیں اسے کچھ مشاہدہ ہوا ہے اسکی باتیں عام فقرا جیسی نہیں یہ بھی کوئی خزانہ چھپائے پھر رہا ہے اسکے مخفی خزانے تک رسائی عام آدمی کے بس کی بات نہیں جسے حقیقت کو جاننے کی خواہش ہوگی اسی بندے سے یہ فقیر کھلے گا۔ میں نے کہا بابا جی میں بہت کچھ سوچتا ہوں لگتا ہے مجھ میں استعداد نہیں رہبری فرمائیں وہ کہنے لگا اللہ نے اپنا راستہ کبھی نا ممکن نہیں بنایا یہ کمال کی بات ہے دنیا میں رہ کر اللہ سے ملنا اسکی قربت کے طلبگار ہونا یہ آسان بات ہے اللہ نے اپنا راستہ آسان بنایا ہے جب آپ اللہ کا راستہ چلنا چاہیں اور محسوس ہو کہ دقت پیدا ہو رہی ہے تو پھر کہیں کوئی غلطی ہے آپ اپنی ہستی میں رہ کرنیکی کرو اپنی استعداد کے مطابق ۔ لامحدود کے سامنے تمہارے عمل کی وقعت کیا ہے لیکن عمل رائیگاں نہیں جاتا سمندر کو آپ کیا پیش کرو گے چار دریا پیش کرو تو وہ بھی تھوڑے ہیں چار دریا ہوں یا پچاس اس کے سامنے سب برابر ہیں تم نے اپنی چیز دنیا کے سامنے پیش نہیں کرنی بلکہ اللہ کو پیش کرنی ہے وہ جانتا ہے اس نے تمہیں کیا دیا ہے بس استعداد کے مطابق عمل کرو وہ قبول کرنےوالی ذات ہے ایک سائل بادشاہ کے پاس گیا بادشاہ نے پوچھا تمہیں کیا چاہیے جو چاہیے بول سائل نے کہا جہاں پناہ مجھے آدھی سلطنت عطا فرما دیں بادشاہ نے کہا یہ تیری اوقات نہیں اس نے کہا جہاں پناہ پھر چند روپے عطا فرما دیں بادشاہ نے کہا یہ میری شان کیخلاف ہے تو بادشاہ کو یہ استعداد نہ ہوئی نہ تو اس نے بادشاہی کا اظہار کیا نہ ہی ضرورت پوری کی آپ نے اللہ کو جو پیش کرنا ہے اسے دل سے پیش کرو معذرت کا سجدہ ہی پیش کرو لیکن دل سے وہ اس بے نیاز ذات کو پسند ہے دراصل استعداد دنیا داری کا نام ہے اور نیت اللہ کا نام ہے اس پاک ذات کے ساتھ دنیا داری نہ کرنا اس سے محبت کرو محبت میں تمہارا سب کچھ اللہ کا ہے نہ مانگے تب بھی سب کچھ اس پاک ذات کا ہے اگر تم اللہ کے سامنے کچھ کرنا چاہتے ہو تو پھر اس پاک ذات کے سامنے معذرت کیسی اللہ سے تم نے کیا چھپانا ہے وہ مخفی اور ظاہر سب جاننے والا ہے بس نیک نیتی اور دل سے عمل کرتے جاو زندہ ہو تب بھی اس کےنام پر مر جاو تب بھی بس اس سفر کے درمیان کہانی مکمل ہو جاتی ہے اللہ کے حبیب نے کہا میں بھی اس ذات کو سجدہ کرتا ہوں تم بھی کرو حضور جسکی نماز پڑھ رہے ہیں اسی کا نام اللہ ہے لہٰذا اللہ کو حضور سے الگ جانو حضور اللہ کے بندے ہیں اللہ ہر ابتدا سے پہلے اور ہر انتہا کے بعد ہے اللہ خالق ہے اور حضور مخلوق تو یہ ہمارا ایمان ہے لیکن حضور ایسی مخلوق ہیں جن پر اللہ اور اسکے فرشتے درود بھیجتے ہیں وہ اللہ کے بہت ہی قریب ہیں وجہہ کائنات آپ نہ ہوتے تو یہ کائنات بھی نہ ہوتی وہ ہمارے جیسی مخلوق سے الگ ہیں زندہ آدمی کا محبوب بھی زندہ ہوتا ہے ہم لوگ مرے ہوئے لوگ ہیں اپنے آپ کو زندہ کہتے ہو لیکن اس حقیقت کے برعکس جیسے اس مالک نے زندہ رہنے کے آداب بتائے ہیں اس طرح رہو تو زندہ ہو پھر محبوب زندہ ہے جس کے ساتھ اللہ نے محبت کی ہو جس پر رحم کیا ہو فیض عطا فرمایا ہو پھر اللہ اسے ضائع نہیں ہونے دیتا تمہیں وہ واقع یاد ہوگا جب سی ڈی اے نے سڑک کشادہ کرنے کےلئے سخی محمود بادشاہ والد گرامی حضور بری امام کے مزار کو شہید کرنا چاہا تو ٹریکٹر کوشش کے باوجود بھی نہ چلا لہٰذا مزار وہیں پر ہے اور سڑک جتنی کشادہ ہونا تھی ہو گئی اللہ والوں کی اللہ خود حفاظت فرماتا ہے ان لوگوں نے اللہ کی یاد کو قائم کیا اللہ نے ان کو قائم کر دیا زندگیاں قائم ہو گئیں یادیں قائم ہو گئیں اور یہ سب کچھ قیامت تک رہے گا اپنے پاک کلام قرآن مجید کو قائم کر دیا اب بھلا کسی کی مجال ہے کہ اسکی زیر زبر کو بھی تبدیل کرے حضور کو ایسا بنا دیا کہ رہتی دنیا تک ان کی شان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے قیامت کے روز اپنی امت کےلئے بخشش کی سفارش کرنے والے آپ کے نام پر مرنے والے شہید کہلاتے ہیں شہید زندہ ہوتے ہیں تو پھر جس ذات پر شہید ہوا وہ تو پھر ہر لمحہ زندہ ہے سمجھ کی بات ہے یہاں عقل جواب دینے سے قاصر ہے محبت زندہ اور تابندہ ہے خالق لافانی ہے۔