عام انتخابات کا مرحلہ بخوبی طے ہوتے ہی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے اپنے اپنے عہدے کا حلف سنبھالیا ہے تاہم وفاق میں صدر مملکت نے ابھی تک قومی اسمبلی کا اجلاس طلب نہیںکیا جبکہ آئینی تقاضا ہے کہ 29فروری سے پہلے پہلے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے ، اراکین اسمبلی کا حلف لیا جائے اور پھر نئے منتخب وزیر اعظم ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا چناو¿ کیاجاسکے، ایک ایسے نازک مرحلے پر صدر مملکت کی جانب سے اجلاس کا طلب نہ کیا جانا ایک لمحہ فکریہ ہے اور آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے ،یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدر مملکت کسی وجہ سے اجلاس طلب نہ کریں تو آئین کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی بھی یہ اجلاس طلب کرسکتا ہے ،لہٰذا اس مسئلے پر تاخیر آئینی خلا پیدا کرنے کے مترادف ہوگا ، یہ آئینی خلا اور بحران مصنوعی طور پر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، اخباری اطلاعات کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے قومی اسمبلی اجلاس بلانے کی سمری پر دستخط میں تاخیر کی جا رہی تاہم مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ صدر نے اجلاس نہ بلایا تو 29فروری کو سپیکر آئینی طور پر خود اجلاس بلا سکتا ہے ۔ صدر مملکت کے پاس قومی اسمبلی اجلاس پیر کو بلانے کی سمری بھیجی گئی تھی، صدرمملکت کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی نامکمل ہے ،وہ سمری کو15 دن تک روک سکتے ہیں۔صدر کو بریفنگ دی گئی کہ آئین کے تحت قومی اسمبلی کا اجلاس 29 فروری کو لازمی بلا نا پڑے گا، آئین پابند کرتا ہے کہ انتخابات کے 21 دن کے اندر اجلاس لازمی بلایا جائے۔اگر 29 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو اسی دن حلف کے بعد نئے اسپیکر کا شیڈول جاری کیا جائے گا پھر یکم مارچ کو اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے کاغذات جمع کروائے جائیں گے اور دو مارچ کو اسپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب ہوگا جس کے بعد اسی دن ڈپٹی اسپیکر کا بھی چنا و¿کر لیا جائے گا۔اسی طرح، تین مارچ کو وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا عمل ہوگا، 4 مارچ کو قومی اسمبلی میں وزیراعظم کا الیکشن کرایا جائے گا اور 9 مارچ کو صدر کا انتخاب الیکشن کمیشن آف پاکستان کرائے گا۔سابق وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ آئین میں بڑا واضح ہے کہ اگر اجلاس نہیں بلایا جاتا تو 21ویں روز سپیکر کو اجلاس بلانے کا اختیار ہے، آئین کی 21دن کی مہلت کے حساب سے 29فروری آخری تاریخ بنتی ہے، صوبوں میں بھی اگر گورنر اجلاس نہیں بلاتا تو وہاں بھی یہی اصول لاگو ہوگا۔ معیشت کیسے درست ہوگی ایسے فلور پر یہ نہیں ڈسکس کر سکتا۔دوسری جانب مسلم لیگ ن کے سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ آئین میں کابینہ کے 33 ارکان کی اجازت ہے۔ آئین کی رو سے 21 دن میں پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جانا چاہیے، اگر صدر اجلاس نہیں بلاتا تو اس کا طریقہ کار موجود ہے۔ پارلیمان کا یہ اختیار ہے کہ وہ یہ آرڈر کرے کہ اسمبلی کا اجلاس بلایا جانا چاہیے۔ آئین سے روگردانی نہیں ہوسکتی، صدر مملکت کو جانے سے پہلے آئین کی پاسداری اپنے حلف اور عہدے کا پاس کرنا چاہیے۔ شہباز شریف مختصر کابینہ کے ساتھ حکومت شروع کرنا چاہتے ہیں۔ مریم نواز کی عوام میں بحیثیت وزیراعلی پذیرائی کےلئے سب سے اہم پرفارمنس ہے،علاوہ ازیںمسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ صدر عارف علوی کا دور غیرجمہوری وارداتوں سے بھراہے۔ سپریم کورٹ ان کی آئین شکنی پر مہر لگا چکی ہے،قومی اسمبلی کا اجلاس تو ہو ہی جانا ہے لیکن صدر علوی گھر جاتے جاتے اپنی پوشاک پر سیاہ داغوں سے پاک تھوڑی سی جگہ تو باقی رہنے دیں۔دریںاثناءپنجاب اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید علی حیدر گیلانی نے کہا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس کسی کی ذاتی انا اور ضد کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہئے، ایوان صدر کو ایک مرتبہ پھر جمہوریت کش اقدامات کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر عملدرآمد کے پابند ہیں، آئین کا آرٹیکل 91انہیں مقررہ وقت کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا پابند کرتا ہے، عارف علوی اپنی مدت ختم ہونے کے باوجود ایوان صدر میں براجمان ہیں، قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں لیت و لعل سے کام لینے والے کسی اور کے ایجنڈے پر گامزن ہیں،عارف علوی کے کمنٹس ان کی جانبداری ظاہر کرتے ہیں، ایوان صدر کے تقدس کا خیال رکھیں۔
گردشی قرضوں میں اضافہ
پاکستان میں گردشی قرضوں کی مقدار میں اضافہ ہوتا آرہا ہے اور ہر آنے والی حکومت نئے قرضے حاصل کرکے قوم پر مہنگائی کا عذاب مسلط کرتی رہتی ہے ، اس وقت بھی پاکستان نے گردشی قرضوں کا اسٹیٹس کوبرقرار رکھنے کا آئی ایم ایف کا ہدف حاصل کر لیا جو کہ 1.2ارب ڈالر کی اگلی قسط کے حصول میں معاون ہو سکتا ہے تاہم بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود اس شعبہ میں بہتری کا امکان نہیں۔ دسمبر تک گردشی قرضے385ارب تک رکھنے کی شرط کے برعکس ان کی سطح378تک بڑھی، تاہم رواں سال کی پہلی ششماہی میں پاور سیکٹر کا کل گردشی قرضہ 26 کھرب 90 ارب تک بڑھ گیا۔ پاکستان نے رواں مالی سال کے آخر تک گردشی قرضے جون2023 کی 23 کھرب، 10ارب کی سطح پر لانے کا وعدہ کیا ہے، اس سے زائد گردشی قرضوں کو بجلی کی قیمت میں مزید اضافے یا بجٹ سبسڈی کے ذریعے طے کئے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کا حکمت عملی کا فوکس پاور سیکٹر کے نقصانات بجٹ میں سبسڈی اور بجلی کی قیمت میں اضافے سے پورے کرنے پر ہے۔ حکومت نے بجٹ میں سبسڈی اور ماضی کی قرضوں کی ادائیگی کیلئے 952ارب روپے مختص کئے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث لوگوں نے سولرپینلز سمیت متبادل ذرائع کا استعمال شروع کردیاہے۔ وزارت توانائی کے حکام نے کہا کہ گردشی قرضوں کو بڑھنے سے روکنے کیلئے حکومت مسلسل ٹیرف میں ایندھن کی قیمتوں کے مطابق ردوبدل کر رہی ہے۔ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے جنوری کیلئے مزید سات روپے فی یونٹ اضافے کا مطالبہ کیا ہے، جس پر نیپرا سمیت مختلف حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ ادھر حکومت نے آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ لاگت میں کمی کیلئے آئی پی پیز کیساتھ بات چیت اور صارفین پر بوجھ کم کرنے کیلئے قابل تجدید توانائی کا نظام متعارف کرارہی ہے، تاہم اس میں ابھی تک ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی؛ چینی پاور پلانٹس سے بات چیت شروع ہی نہیں کی، چین اس حوالے سے معاہدوں پر غورسے انکار کر چکا ہے۔حکومت نے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا کنٹرول نجی شعبے کودینے میں بھی کوئی پیش رفت نہیں کی۔ فروری کے پہلے ہفتے نجکاری کمیٹی نے گجرانوالہ اور حیدرآباد ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو نجی شعبے کو دینے کی منظوری دی؛ انسداد بجلی چوری مہم سے بھی آئی ایم ایف کو آگاہ کیا۔حکومت دسمبر میں بجلی چوری کا قابل دست اندازی پولیس جرم بنانے کا آرڈننس بھی نافذکر چکی ہے، پشاور اور حیدرآباد کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا آڈٹ بھی شروع کیا ہے، جس کی رپورٹ آئندہ ماہ آئی ایف کیساتھ شیئر کی جائے گی۔
ملک بھر میں انسداد پولیومہم
ملک بھر سے پولیو کے مرض کے خاتمے کیلئے وسیع اور ملک گیر مہم کا آغاز ہوچکا ہے جس میں پولیو کے رضاکار گھر گھر جاکر بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں گے ، سننے میں آرہا ہے کہ حکومت کی جانب سے جن بچوں کو قطرے پلائیں جائینگے انہیںفی کس دو ہزار روپیہ دیا جائے گا ، اس وقت ۔وزارت قومی صحت کے مطابق حالیہ سال کی دوسری مہم کے دوران ملک بھر میں 26 فروری سے 3 مارچ تک اور 3 سے 9 مارچ تک خیبرپختونخوا کے 33 اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر کے 45.8 ملین سے زائد بچوں کو پولیو سے بچا کے قطرے پلائے جائیں گے جبکہ بچوں کی قوت مدافعت میں اضافہ کیلئے وٹامن اے کی اضافی خوراک بھی دی جائے گی۔وفاقی سیکرٹری صحت افتخار علی شلوانی نے کہا کہ پولیو ایک خوفناک بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے اور یہ وائرس بچوں کو زندگی بھر کیلئے معذور بنا سکتا ہے انہوںنے کہاکہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پولیو وائرس ہمارے بچوں کیلئے بدستور خطرہ ہے کیونکہ کچھ لوگ ویکسین کے بارے میں غلط فہمیوں اور غلط معلومات کی بنیاد پر بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کرتے ہیں۔
اداریہ
کالم
صدر کا قومی اسمبلی اجلاس طلب نہ کرنا لمحہ فکریہ
- by web desk
- فروری 27, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 724 Views
- 10 مہینے ago