پاکستان اور افغانستان کے درمیان مزاکرات اگر ناکام ہوتے ہیں اور کوئی سمجھوتہ طے نہیں پاتا اور دوبارہ سیز فائر سے پہلے والی اگر صورتحال پیدا ہوتی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان جنگ اگر طول پکڑتی ہے تو اس کا نقصان دونوں ممالک کو ہوگا لیکن طویل المدت نقصان سب سے زیادہ طالبان اور افغانستان کو ہوگا۔ یہ بیانیہ نہ صرف زمینی حقائق بلکہ تاریخ، معاشی دبا اور بین الاقوامی تناظر کی روشنی میں واضح ہوتا ہے طالبان کا اقتدار جو بظاہر طاقت کی علامت ہے، اندرونی کمزوری، عوامی ناامیدی اور بین الاقوامی تنہائی کی وجہ سے مزید درہم برہم ہو گا۔ اور یہی عوامل اس کی زوال پذیری کے باعث ہونگے ۔سب سے پہلے طالبان کا سیاسی تصور ایک ایسا ماڈل پیش کرتا ہے جو 21ویں صدی کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتا دنیا بدل چکی ہے اطلاعات، معاشی شمولیت اور انسانی حقوق کے عالمی معیار نے عوام کے شعور کو تبدیل کیا ہے نوجوان نسل، جو آبادی کا بڑا حصہ ہے، اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ بیدار اور مطالبہ مند ہے۔ جب روایتی، سخت گیر اور سماجی آزادیوں کو محدود کرنے والا نظام اختیار کیا جاتا ہے تو وہ معاشرتی قوتیں جنہیں سادہ جبر و خوف سے دبایا جا سکتا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ شدید مزاحمت میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔یہی عمل یورپ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے کئی قبائلی یا انتہاپسند نظاموں کے زوال کا سبب بنا ہے۔
دوسرا، معاشی دباؤ اور بنیادی انفراسٹرکچر کی تباہی افغانستان کو ایک ناکارہ معیشت میں بدل رہی ہے بین الاقوامی امداد، سرمایہ کاری اور تجارتی روابط کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔طالبان کی حکمرانی نے بین الاقوامی فنڈنگ اور امدادی چینلز کو محدود کر دیا ہے، جس سے روزمرہ کی چیزیں صحت، تعلیم اور خوراک مسائل کا شکار ہیں۔ اقتصادی عدم استحکام عوامی ناراضگی کو جنم دیتا ہے جب اپنے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہوں تو عوامی حمایت کمزور پڑ جاتی ہے۔
تیسرا، طالبان کے اندرونی اختلافات اور طاقت کی داخلی کشمکش اسکے زوال کو تیز کر سکتی ہیں۔ کوئی بھی غیر جمہوری، مسلح تنظیم جو ایک ہی نظریہ یا قاعدہ کے گرد منظم ہوتی ہے، جب قیادت یا منافع کے تقسیم میں اختلافات آئیں تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ طالبان کے مختلف فریق، علاقائی گروہ اور ذاتی مفادات کا تنازعہ اندرونی تقسیم کو جنم دے سکتا ہے یہ باہم تقسیم بالآخر ادارہ جاتی طور پر تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔
چوتھا، بین الاقوامی دباؤ اور علاقائی ترجیحات بھی طالبان کے خلاف کام کریں گی۔ اگرچہ بعض ریاستیں تذویراتی مفادات کی بنا پر طالبان کے ساتھ وقتی طور پر تعلقات رکھ سکتی ہیں، مگر عالمی برادری انسانی حقوق، دہشت گردی کے خلاف اقدامات اور استحکام کے تقاضوں پر زور دیتی رہے گی۔ افغانستان کی سرزمین کو دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بننے کی اجازت دینا بین الاقوامی سطح پر ناقابل قبول ہے اور یہی بات علاقائی طاقتوں کو اس مسئلے کے حل کے لیے متحرک رکھے گی۔
پانچواں، طالبان کی عسکری حکمت عملی بھی طویل المدت میں کامیاب ثابت ہونا مشکل ہے۔ جنگ محض توپ اور بندوق سے نہیں جیتی جاتی یہ دلوں اور دماغوں کی جنگ ہے۔ اگر مقامی آبادی کے مسائل حل نہ کیے جائیں، اگر تعلیم، روزگار اور انصاف کی فراہمی نہ ہو، تو عسکری قوت کا اثر وقتی ہوگا مگر بنیادیں ہل جائیں گی۔ طالبان کے پاس جن جنگی وسائل اور حکمت عملیوں کا سہارا ہے، وہ دیرپا استحکام پیدا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
پاکستان کا مقصد افغانستان فتح کرنا یا اس کی خودمختاری کو نقصان پہنچانا ہرگز نہیں ہے۔ پاکستان کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ کابل میں موجود انتظامیہ تحریکِ طالبانِ پاکستان ، BLA اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس اور موثر کارروائی کرے، تاکہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملے رک سکیں۔ اگر افغان حدود کے اندر بیٹھ کر ایسے گروہ پاکستانی شہریوں اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کرتے رہیں تو یہ محض سرحدی مسئلہ نہیں رہے گا بلکہ قومی سلامتی، عوامی برداشت اور اندرونی اتحاد کو بری طرح متاثر کرے گا۔ مزید براں، اگر طالبان یا ان کے معاون گروہ افغانستان سے بار بار پاکستان پر حملے کریں گے تو وہی لوگ جو فی الحال مذہبی جذبات یا نظریاتی رابطے کی وجہ سے جنگ سے گریزاں ہیں، وہ بھی طالبان کے خلاف سخت موقف اختیار کر لیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرحد پار دہشتگردانہ کارروائیاں پاکستانی عوام کی وسیع اور متنوع اکثریت کو متحرک کر سکتی ہیں، اور اس صورتِ حال کے نتائج کسی ایک فریق کے لیے سنگین ہوں گے۔لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ طالبان کی شکست خود بخود خوشحالی اور امن کا ضامن نہیں ہوگی۔ افغانستان اور پاکستان دونوں میں استحکام کے لیے منظم، سوچے سمجھے اور جامع منصوبوں کی ضرورت ہے اسلام آباد اور کابل کے درمیان براہ راست رابطوں کو بڑھانا ہوگا پاکستانیوں کے لئے یہ بات ناقابلِ برداشت ہے کہ ہمارے افغان بھائی انڈیا کے اشاروں پر پاکستان پر حملے کریں۔ اگر طالبان کی طاقت واقعی کمزور پڑتی ہے تو خلا میں وہ عناصر داخل ہو سکتے ہیں جو اس خلا کو مزید غیر مستحکم بنا دیں۔قبیلائی تنازعات، منشیات کا کاروبار یا علاقائی طاقتوں کے مداخلتی مفادات۔ اس لیے حکومتوں، سول سوسائٹی، مذہبی و قبائلی رہنماؤں اور بین الاقوامی شراکت داروں کو مل کر جدید، شمولیتی اور موثر حکمت عملیاں وضع کرنی ہوں گی۔پاکستان کے حوالہ سے بات کریں تو یہ ہمارے لیے وقت ہے کہ ہم قومی مفادات، داخلی امن اور علاقائی استحکام کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائیں۔ سرحدی سیکیورٹی، مہاجرین کے مسائل، انسانی ہمدردی اور اقتصادی تعاون یہ سب ایسے موضوعات ہیں جن پر سنجیدہ توجہ لازم ہے۔ افغانستان کے لیے بھی داخلی قومی مکالمہ، خواتین و بچوں کی حفاظت، اور تعلیم و روزگار کے مواقع اولین ترجیح ہونے چاہئیں۔ صرف عسکری دباو یا عارضی سیاسی سمجھوتے مستقل حل نہیں لا سکتے۔
آخر میں ایک حقیقت واضح ہے، طالبان کے زوال کی منادی کا مطلب یہ نہیں کہ ایک دن میں مسائل ختم ہو جائیں گے مگر تاریخی رجحانات، عوامی رضامندی، اقتصادی شرائط اور بین الاقوامی رویے ایک ساتھ مل کر یہ بتاتے ہیں کہ موجودہ سخت گیر ماڈل طویل عرصے تک قائم رہنا مشکل ہے۔ طالبان کی شکست ممکن ہے اور شاید ناگزیر بھی مگر اس شکست کے بعد آنے والا دور کتنے امن اور شفافیت کا ہوگا، یہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ ہم سب علاقائی اور عالمی کھلاڑی کیسے حکمت عملی اپناتے ہیں۔ امن صرف ہتھیار ڈالنے سے نہیں آتا، امن تب آتا ہے جب عوام کو امید، انصاف اور معاشی مواقع ملیں۔ یہ دونوں ملکوں کی ضرورت ہے جس پر عملدرآمد کرکے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔
کالم
طالبان کی یقینی شکست
- by web desk
- نومبر 4, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 25 Views
- 23 گھنٹے ago

