جمخانہ لاہور میں مجلس رومی و اقبال نے تحریک آزادی کشمیر میں علامہ اقبال کے رول پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس کی نظامت کے فریض جناب اعجاز شیخ نے انجام دئے۔ اس کے مہمان خصوصی جناب پروفیسر احمد عدنان تھے اور اس کی صدارت جناب ڈاکٹر جاوید اکرم وزیر صحت حکومت پنجاب نے کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اہم دانشور اور ماہر اقبالیات بریگیڈیئر یٹائرڈ پروفیسر وحیدالزمان طارق نے کشمیر کی گذشتہ دو صدیوں کی تاریخ کا احاطہ کرتے ہوئے 1846کے بیع نامہ امرتسر کا حوالہ دیا جس کے تحت کشمیر اور اس کے عوام کو قسطوں پر ادا کردہ پچاس لاکھ روپے کے عوض بیچ دیا گیا اور ہندو ڈوگروں کو مسلمان اکثریت پر ظلم ڈھانے کےلئے کھلی چھٹی دے دی گئی۔ علامہ اقبال کے دادا شیخ رفیق کو بھی مسلمانوں پر عرص حیات کے تنگ ہونے پر کلگام کشمیر میں اپنے وطن مالوف کو چھوڑنا پڑا۔ اسی لئے اقبال نے فرمایا:
تنم گلے زخیابان جنت کشمیر
دلم ز خاک حجاز و نواز شیراز است
یعنی، اگرچہ میرا دل حجاز مقدس کی طرف مائل ہے لیکن میں اس کشمیری قوم سے تعلق رکھتا ہوں اور یہی وجہ ہے مجھے اس سرزمین سے بے حد محبت ہے۔ آپ 1898 میں انجمن کشمیری مسلماناں میں شامل ہوگئے اور کشمیر کی ڈوگرا استبداد سے آزادی کے لئے کوشاں ہو گئے۔ آ نے اس وقت تک کشمیر کے مسلمانوں کی مظلومیت کے خلاف آواز اٹھائی جب تک اس کے جسم میں جان باقی رہی۔ ان کا دو بار کشمیر میں داخلہ بند کردیا گیا۔ 1932 میں آپ کشمیر کمیٹی کے صدر بھی رہے ۔ اقبال نے مجلس اقوام کو باد صبا کے ذریعے پیغام دیا۔
باد صبا اگر بہ جنیوا گذر کنی
حرف زما مجلس اقوام باز گوئے
دہقان وکشت وجوئے خیاباں فروختند
قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند
سے باد صبا اگر جنیوا میں تیرا گزر یو تو ہمارے حالات کی خبر مجلس اقوام تک پہنچانا۔ انہوں(انگریزوں)نے کسانوں کو ان کے کھیتوں، باغات اور کشمیر کی ندیوں سمیت بیچ دیا۔ ایک پوری قوم کو بیچ دیا گیا اور بہت سستا بیچ دیا گیا۔ڈوگروں کے عہد میں کشمیر میں بیگار یعنی جبری مزدوری کا نظام متعارف کروایا گیا تھا۔ کسی بھی شخص کو اپنے حقوق کے حصول کی خاطر بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے۔ مسلمانوں کی اس فلاکت ہر علامہ اقبال بے حد پریشان اور مضطرب تھے۔ آپ یہاں کے وگوں کے افلاس اور غربت کا خاتمہ چاہتے تھے۔ آپ مظلوم کشمیری قوم کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ نے کشمیریوں کو ڈوگرہ حکومت کی غلامی سے نجات دلانے کےلئے عملی کوششیں بھی کیں۔ دو بار آ کے کشمیر میں داخلہ پر پابندی بھی لگائی گئی۔علامہ اقبال کی آخری کتاب ارمغان حجاز جو آپ کی وفات کے کچھ ماہ بعد شائے ہوئی تھی اس میں موجود نظم میں فرمایا۔
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
. سینہ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک.
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر
25 جولائی 1931 کو جناب نواب ذو الفقار علی کی رہائش گاہ پر ایک اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں علامہ اقبال سمیت دیگر اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں کشمیر کے مسلمانوں کے مسائل اور ان کے حل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک کمیٹی قائم کی گئی، جس کا نام آل انڈیا کشمیر کمیٹی رکھا گیا اور کچھ عرصہ کے لئے اس کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ انہوں نے شیخ عبداللہ اور دیگر رہنماں سے پہلے کشمیر کی آزادی کی بات کی تھی اور کشمیری قوم کےلئے بے حد فکر مند تھے۔ آپ نے فرمایا تھا۔
توڑ اس دست جفا کیش کو یارب جس نے
روح آزادی کشمیر کو پامال کیا
کشمیر کو ڈوگرہ شاہی نے انگریزوں کے سامنے بیگار اور لوٹ مار کے ذریعے لوٹا اور 1947 میں ڈوگروں نے شیخ عبداللہ کے ساتھ ساز باز کرکے بھارتی افواج کو کشمیر میں داخل کروادیا۔ پھر کشمیریوں پر ظلم و ستم جاری رہا ۔ بھارت نے کشمیریوں کو آئینی ضمانتیں بھی دیں لیکن آج اسی ائین کی شقوں کو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ آج کشمیر کے عوام کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ آج سرینگر یونیورسٹی میں اقبال چیئر موجود ہے۔ آج باہر سے لا کر ہندو کشمیر میں آباد کئے جارہے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریتی حیثیت کو ختم کیا جارہا ہے۔ جموں اور لداخ میں مسلمان اقلیت ۔یں بدل چکے ہیں ۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ وحیدالزمان طارق نے بتایا کہ مسلمانوں کا کشمیر مین جینا حرام کردیا گیا ہے اور ان کی نسل کشی کی جارہی ہے۔آج اقوام متحدہ کی قراردادیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی ہیں۔دنیا اپنے وعدوں سے منحرف ہو چکی ہے۔ آج وہ ظلم و ستم پر اپنی آنکھیں بند کر چکی ہے۔ جس قدر کشمیر کے ساتھ یکجہتی کی ضرورت آج ہے اس سے پہلے کبھی بھی نہیں تھی۔
کالم
علامہ اقبال و یوم یکجہتی کشمیر
- by web desk
- فروری 13, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 632 Views
- 1 سال ago