کالم

عمران کی باہر روانگی اور عدالتی کمیشن!

پاکستان میں آج کل دو خبریں چھائی ہوئی ہیں۔ایک تو عمران خان کو باہر بھیجنا اور دوسرا آڈیو لیکس پر عدالتی کمیشن کا قیام ۔یوں تو مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کا مقبول عام موضوع آج بھی نو مئی کا سانحہ ہے لیکن ان دو خبروں کی معنویت اور اہمیت بھی کچھ کم نہیں۔عمران خان کی جبری جلا وطنی پر طرح طرح کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی دور سے قیاس کے گھوڑے دوڑاتا ہوا تھکتا نہیں۔لیگی رہنما میاں جاوید لطیف بلا خوف اور بے لاگ گفتگو کے لئے مشہور اور معروف رہے ہیں۔چند دن پہلے انہوں نے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بڑے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے اور کئی انکشافات کئے ہیں۔ سوسوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ جب نواز شریف کے خلاف سازش کی گئی اور 2018 کے الیکشن میں دھاندلی کی گئی تو بیرون ممالک سے تشویش ناک خطوط کیوں نہیں آئے؟ جیسا کہ آج کل تحریک انصاف کی منظم لابنگ اور مارکیٹنگ کی وجہ سے بیرون ممالک سے خط آ رہے ہیں کہ عمران خان کے خلاف انتقامی کاروائی نہ کی جائے۔ کئی قد آور سیاستدان ہمیں بار بار متنبہ کر رہے ہیں کہ سی پیک رکوانے کے لئے باہر کی قوتیں پاکستان کے اندر مداخلت کر رہی ہیں اور وہ قوتیں کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ گویا سی پیک امریکا کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا اور وہ اپنی چالیں چل رہا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما میاں جاوید لطیف نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ہلکی ہلکی آنچ پر آوازیں اٹھ رہی ہیں عمران خان کو باہر بھیج دیا جائے لیکن کوئی عمران خان کو باہر بھیجنے کی جرات نہ کرے ، سیاسی قیادت کے سینوں میں بہت سے راز ہیں، اگر میری ریاست خطرے میں پڑ گئی تو میں زبان پر لگا تالا کھولوں گا،کیا دنیا کے مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ سیاست نہیں کر رہے؟ کیا اس سے پہلے کبھی پاکستان مخالف قوتوں کے اس طرح خطوط آئے ہیں جو عمران خان کے لئے آئے ہیں؟عمران خان کے لئے اب بھی سہولت کار ی کا کردار ادا کرنے والے کسی سے پوشیدہ نہیں،کیا اس سے قبل کسی دنیا کے طاقتور ملک سے اتنی بھاری تعداد میں ممبران نے کسی کے لئے خط لکھا ؟ اس سے پہلے جب نواز شریف کو ہائی جیکر بنا کر سزا دی گئی تھی ، ذوالفقارعلی بھٹو کو ہٹا کر جب مارشل لا لگا کیا اس وقت اس طرح خطوط آئے ؟جو نواز شریف کے ساتھ کیا گیا، اس کے خاندان اور جماعت کے ساتھ کیا گیا اس پر کوئی خط آیا؟ کسی نے آواز بلند کی؟آج دنیا کے مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ کڑی شرائط پر معاہدے کی باتیں کیوں کرتے ہیں؟ مدینہ منورہ میں جو بے حرمتی ہوئی تھی ، جو نعرے بازی اورجو اودھم مچایا گیا، اگر ریاست کے ادارے اس پر سخت ایکشن لیتے تو پھر نو مئی کے واقعات نہ ہوتے،کوئی مت یہ سوچے عمران خان کو باہر بھیج دیا جائے گا۔
جاوید لطیف کی یہ باتیں اپنے اندر غورو فکر کا بڑا ساماں رکھتی ہیں۔آنکھیں روشن اور دماغ تجزیے کی صلاحیت سے متصف ہو تو صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے باہر کی قوتیں اب تحریک انصاف کے چئیر مین کو بچانا چاہتی ہیں۔لیکن یہ اتنا آسان نہیں کیونکہ ہر روز آرمی چیف جنرل عاصم منیر اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ سانحہ نو مئی کے ملزمان کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا۔آرمی چیف نے لاہورجناح ہا س کا دورہ بھی کیا ہے اور انہوں نے برملا کہا ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قانونی عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے ٹی این آئی کے مطابق جنرل عاصم منیر نے فوجیوں اور افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوج عوام سے ہی اپنی قوت حاصل کرتی ہے ،دونوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوئی بھی کوشش ریاست کے خلاف عمل ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا، جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈا کے ذریعے کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن دشمن کی ایسی کوششوں کو قوم کی مدد سے شکست دی جائے گی۔عمران خان کی جلا وطنی تاحال تو ممکن نظر نہیں آتی کیونکہ فوج کے سربراہ بار بار اپنے ذہن کو کھول رہے ہیں کہ مجرموں کو نہیں چھوڑیں گے۔
حبس کے ماحول اور گھٹن کے موسم میں ایک اچھی خبر بھی آئی جو دکھی دلوں پر مرہم سا رکھ گئی ہے۔ خبر ہے اور شاداں و فرحاںکر نے والی خبر ہے کہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لئے حکومت نے جسٹس فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسی ہوں گے جبکہ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کمیشن کے ارکان ہیں۔آج کل وڈیو لیکس کے ساتھ ساتھ بعض اہم شخصیات کی کچھ آڈیو بھی لیک ہوئی ہیں جن کی وجہ سے ملکی سیاست میں ایک بھونچال آیا ہوا ہے۔نہیں معلوم کہ حکومت نے وڈیو لیکس کے معاملہ کو مذکورہ عدالتی کمیشن کے دائرہ کا ر سے باہر کیوں رکھا ہے۔اس کے باوجود اگر آڈیو لیکس کی بھی تحقیقات ہو جائیں تو سیاسی طوفان تھم سکتاہے۔ٹی او آرز کے مطابق کمیشن آڈیو لیک کی تحقیقات کرے گا۔کمیشن نہ صرف 11 سے 12 آڈیو لیکس کے معاملے کا جائزہ لے گا بلکہ اس کو یہ اختیار ہو گا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی آڈیو سامنے آئی ہے تو کمیشن اس کا معاملے کا بھی جائزہ لے سکتا ہے۔ امید ہے یہ عدالتی کمیشن آڈیو لیکس کی بہت سی گھتیاں سلجھا دے گا اور چھپی ہوئی حقیقت بے نقاب ہو جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri