کالم

فالس فلیگ آپریشن اور بھارتی سکھوں کی حالت زار

مبصرین کے مطابق بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشنز کا تسلسل نہ صرف جنوبی ایشیا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی لمحہ فکریہ بن چکا ہے۔اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں الجزیرہ کی ایک جامع رپورٹ نے اس معاملے پر روشنی ڈالی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت میں ریاستی سرپرستی میں ایسے واقعات رچائے جاتے ہیں جن کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا اور اپنی اندرونی سیاست کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔الجزیرہ کی رپورٹ میں مختلف مثالیں پیش کی گئی ہیں جن میں بھارتی سیکیورٹی اداروں کی ملی بھگت سے ایسے حملے کروائے گئے جن کا الزام بعد ازاں پاکستان یا کشمیری مزاحمت کاروں پر ڈالا گیا۔ دراصل ان حملوں کا مقصد عالمی برادری میں پاکستان کی شبیہ کو خراب کرنا اور ہندوتوا بیانیے کو فروغ دینا تھا۔سفارتی مبصرین کے مطابق ان جعلی کارروائیوں کے ذریعے بھارت نہ صرف اپنے عوام کو گمراہ کرتا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی ایک غلط تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کیوں کہ ان کارروائیوں کا ایک مقصد بھارت کی اندرونی سیاست میں شدت پسندی کو فروغ دینا بھی ہے۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ ہر ایسے واقعے کے بعد بھارت میں ہندو قوم پرستی کو تقویت ملی اور بی جے پی جیسی جماعتوں نے انتخابی فائدے اٹھائے۔یاد رہے کہ اس ضمن میں فالس فلیگ آپریشنز کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اقلیتوں کے خلاف نفرت کو ابھارا جا سکے اور عوام کی توجہ اقتصادی ناکامیوں سے ہٹائی جا سکے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہی بیانیہ کشمیر کے صحافیوں پر پابندیوں اور ظلم و جبر کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے۔ حالیہ کشمیر پریس فریڈم رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیری صحافیوں کو منظم طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں گرفتار کیا جاتا ہے، انٹرنیٹ بند کیا جاتا ہے، اور ان کی خبروں پر سنسرشپ عائد کی جاتی ہے تاکہ عالمی دنیا کو وادی میں ہونے والے مظالم سے بے خبر رکھا جا سکے۔سنجید ہ حلقوں کے مطابق صحافیوں کی آزادی سلب کرنا کسی بھی جمہوریت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے مگر بھارت میں یہ عمل ایک معمول بن چکا ہے۔واضح رہے کہ کشمیری صحافیوں کو غیر ملکی ایجنڈے کے تحت کام کرنے کا الزام دے کر جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2022 اور 2023 کے دوران کم از کم 30 صحافیوں کو مختلف مقدمات میں قید کیا گیا اور ان میں سے بیشتر کو بغیر کسی باقاعدہ عدالتی کارروائی کے حراست میں رکھا گیا۔ مبصرین کے مطابق یہ اقدامات آزادی صحافت کی کھلی خلاف ورزی ہیں، اور بین الاقوامی اداروں کو اس پر نوٹس لینا چاہیے۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ بھارت کی یہ پالیسیاں نہ صرف کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر کی بھی صریحاً نفی کرتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ چند برسوں میں درجنوں صحافیوں کو بغیر کسی مقدمے کے حراست میں لیا گیا اور ان پر دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگائے گئے اوریہ الزامات محض انہیں خاموش کرانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔یاد رہے کہ اس صورت حال کے پس منظر میں سکھ برادری کی جانب سے اٹھنے والی آوازوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حالیہ دنوں میں سکھ برادری نے بھارت کے جارحانہ اور اقلیت دشمن رویے کے خلاف زوردار احتجاج کیا۔ خاص طور پر خالصتان تحریک کے حوالے سے سکھ نوجوانوں میں بیداری آئی ہے اور ان مظاہروں کا مرکز نہ صرف بھارت بلکہ کینیڈا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں بھی دیکھا گیا۔کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل نے بھارت کی اقلیت دشمن پالیسی کو عالمی سطح پر بے نقاب کر دیا۔ اس قتل کے بعد سکھ برادری نے نہ صرف بھارت کے خلاف مظاہرے کیے بلکہ پاکستان کے کردار کی بھی تعریف کی جبک پاکستان کی جانب سے کرتارپور راہداری جیسے اقدامات نے سکھ برادری کے دل جیت لیے ہیں۔مبصرین کے مطابق یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے اقلیتوں کو جو مذہبی آزادی اور احترام دیا ہے، وہ بھارت کی تنگ نظر پالیسیوں کے برعکس ہے۔بھارت کی موجودہ حکومت کی پالیسیاں نہ صرف اقلیتوں کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ خطے کے امن و امان کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہیں اور اس ضمن میں فالس فلیگ آپریشنز کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا، کشمیری صحافیوں کی آواز دبانا، اور سکھ رہنما¶ں کو نشانہ بنانا ایک ایسے ایجنڈے کا حصہ ہے جو پورے خطے کو عدم استحکام کی طرف لے جا سکتا ہے۔ایسے میں عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ الجزیرہ کی رپورٹ، کشمیر پریس فریڈم رپورٹ اور سکھ برادری کے احتجاج کو سنجیدگی سے لے۔ ان شواہد کی روشنی میں بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جواب دہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو جنوبی ایشیا میں امن کی امید ایک سراب بن کر رہ جائے گی۔علاوہ ازیں، بھارت کے اندر سے بھی مختلف حلقے اب ان پالیسیوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ بعض بھارتی صحافی، دانشور اور سابق افسران بھی فالس فلیگ آپریشنز کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اوران کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں سے بھارت کی جمہوری اقدار کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ بھی مجروح ہو رہی ہے۔آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ فالس فلیگ آپریشنز، میڈیا پر قدغن، اور اقلیتوں پر مظالم بھارت کے اندر ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اگر عالمی برادری نے بروقت اقدام نہ کیا تو یہ رجحان پورے خطے میں بدامنی اور بداعتمادی کو جنم دے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے