کالم

فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی

رابندر نارتھ ٹیگور نے شاید ہمارے لیے ہی کہا کہ انسان مذہب کے لیے مال اور جان لٹانے کو تیار، حتیٰ کہ جنگ کے لیے بھی، مگر اسی مذہب پر زندگی بسر کرنا دشوار، پاکستان کے ایک سابق صدر نے صائب بات کی تھی کہ ” ہمیں فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی بننے کی ضرورت نہیں ”۔ مگر کیا کریں کہ جذبات کی رو میں بہنا ہم نے اپنا مقدر کر لیا ہے۔ بدقسمتی یہ کہ بسا اوقات سیاسی و مذہبی جماعتیں اہداف کے حصول میں حد سے گزر کر اپنے کارکنان اور قومی املاک کا نقصان کر بیٹھتی ہیں۔ حقیت یہ کہ ہمارے معاشرہ میں ہیجان اور سیاسی و مذہبی انتہا پسندی غالب اور قیادتیں سطحی اور اوسط درجہ کی مالک پھر وراثت تو کبھی انجیکشن کے ذریعے ملی مقبولیت سونے پہ سہاگہ، کارکنان کا طلاطم ہو اور زمین سے آسمان تک پہنچانے والے وفاداروں کا ساتھ ہو تو پھر ہر دیوار سے ٹکراجانے ہر قلعہ فتح کرنے اور دنیا بھر میں بلے بلے کرانے کا جی بھلا کس کا نہیں چاہتا۔ چاہے اس پاداش میں کارکنان کا نقصان ہو، سیکورٹی اہل کاروں کا یا نجی و قومی املاک کا۔ بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی سے ہمارے احتجاج اسی ڈگر پر ہی چل رہے ہیں کہ آسمان سے اترتی قیادتیں بزعم خود ارسطو اور افلاطون۔بصد معذرت کہ سطحی قیادت ملک و ملت کی بجائے مقبولیت کے زیر اثر فیصلے کریں تو نتائج کیسے ثمر آور ہو سکتے ہیں۔ جبکہ ایسے حساس معاملات پر ہمیشہ ریاست کی پوزیشن واضح ہوتی ہے ایسے میں اپنے جذبات اور خواہشات کے مطابق ایسے فیصلے اہنے لیے ہی نقصان دہ۔حماس اور فلسطین کے معاملہ کو ہی دیکھ لیں پاکستان سمیت تمام عرب دنیا اور پورا عالم اسلام غزہ کی صورتحال پر کم از کم افسردہ تو تھا ہی۔ مگر پاکستان و ایران اس بارے پرجوش اور وہ ہر عالمی فورم پر کھل کر فلسطینیوں کی وکالت، حمایت اور اعانت کرتے رہے۔ حتی ٰکہ اقوام متحدہ میں پاکستانی مستقل مندوب کی تقریر تاریخ کا حصہ کہ جس میں انہوں نے واضح الفاظ میں اسرائیل کی دہشت گردی و بربریت کو نمایاں کیا جواباً اسرائیلی مندوب نے مبہم انداز میں دھمکی آمیز گفتگو کی مگر پاکستان کے جوابی وار پر اسے اقوام عالم کے پلیٹ فارم پر معذرت کرنا پڑی۔ یہ واضح ہے کہ فلسطین بارے ریاست کی واضح پالیسی ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم زرداری ہوتے، عمران خان یا کوئی اور، فیصلہ اسی تناظر اور مسلم ممالک کی مشاورت سے متفقہ ہی ہونا تھا۔ اس بار مختلف یہ ہوا کہ امریکہ میں ایسا صدر کہ جنکے بارے میں سفارت کی دنیا کے اقلیم بھی پیشین گوئی سے گھبراتے ہیں سے مفادات کا حصول ہی پاکستان اور امت مسلمہ کی خدمت، کہ مزاج یار کب بدل جائے خبر نہیں۔ کیا یہ ہمارے لیے اعزاز نہیں کہ آٹھ مسلم ممالک کے اجلاس میں پاکستان کی حقیقت پسندانہ آرا سب پر بھاری رہیں اور مسلم ممالک نے انہیں اتفاق رائے سے قبول بھی کیا، اب جبکہ 70 ہزار سے زائد مسلمانوں کے خون کے بعد کیا مزید خون خرابہ کی حاجت تھی۔ ؟ ادھر جبکہ غزہ کے متاثرین اور فریقین فلسطین و حماس ٹرمپ کا امن فارمولہ قبول کر کے اس پر عمل کے مرحلہ میں داخل اور پوری اسلامی دنیا کی جانب سے اسکا خیر مقدم کیا جا رہا ہے تو ایسے میں مارچ، چہ معنی دارد، ؟
بات وہی سابق صدر والی کی کہ ہمیں فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی بننے کی ضرورت کیوں ؟ ٹیگور کا قول ہمارے معاشرے پر خوب صادق آتا ہے کہ ہماری عوام کی اکثریت مذہب کیلئے جان بھی دیتی ہے اور مال بھی لٹاتی ہے مگر جس دین کیلئے جان و مال دینے پر آمادہ اس پر عمل کی کوئی سبیل !۔حیرت اور افسوس یہ کہ تمام تر اخلاقی پستیوں کے باوجود عوام فاروق اعظم جیسے حکمرانوں چاہتے ہیں اور ریاست مدینہ جیسی۔ مگر کیا کبھی اپنے اخلاق و احوال کی خبر لی۔ جواب نفی میں، حالانکہ عوام کو اعلیٰ، باصلاحیت، باکردار اور اہل قیادت کے انتخاب کا موقع بھی ملتا رہا مگر افسوس
کہ ہر بار انہوں نے سطحی قیادت کو چنا سیاسی غلاظت کو پسند۔ اسکے باوجود وہ پوری امت کا درد سینے میں ایسا دبا رکھے ہیں کہ اسکے لیے اپنے ملک کو غزہ بنانے پر آمادہ۔ اعلی ٰروایات و اخلاقیات تو رہے ایک طرف، سیاسی و مذہبی بالیدگی کا عالم یہ کہ ہر دو طبقات کبھی ڈھنگ کا احتجاج کر سکے اور نہ بر سر اقتدار معاملات کو احسن طریقہ سے حل۔ مظاہرین پاکستان کے گلی کوچوں میں کبھی کشمیر تو کبھی فلسطین کو آزاد کرانے میں پرجوش جبکہ متاثرین ایک گھونٹ پانی کیلئے ترستی نگاہوں سے امت اور عالمی دنیا کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سوال یہ کہ جس مذہب کیلئے ہم جان و مال لٹاتے نظر آتے ہیں اس کا عکس کہیں دور دور تک بھی ذاتی زندگیوں میں ہے، یہ سوال قیادت اور کارکنان سب کیلئے۔مگر یہاں تو زبانیں اپنے ہم مذہب اور ہم وطن لوگوں کیلئے شعلے اگلتی ہیں اور حکمران ایسے معاملات کو طاقت اور ڈنڈے سے حل کے خوہاں رہتے ہیں۔حکمت ادھر بھی نہیں تو تدبر سے حکومت بھی عاری۔ سماج کے موجودہ رویوں میں دلیل فہم اور شعور کی بات گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف، سیاسی و مذہبی قیادتوں کا حال یہ کہ انہوں نے کارکنان کی اخلاقی و نظریاتی تربیت کی بجائے انہیں اپنی کوہتاہیوں و نااہلیوں کے دفاع اور مخالف سوچ رکھنے والوں کیلئے کھلا چھوڑ دیا۔ نتیجہ آج سب کے سامنے کہ ہر سو فکری و نظریاتی انتشار، سیاسی منافرت اور تعصب و نفرت۔ حقیقت تو یہ کہ اس وقت اہل غزہ کو پرتشدد احتجاج ، لاٹھی، گولی کی نہیں بحالی کی ضرورت تھی متاثرہ جماعت سے ہمدردی اور ان کے لیے مخلصانہ مشورہ کہ جبکہ ان کے پاس بقول انکے ملک بند کرنے کی قوت اور مرنے مارنیوالے کارکنان مو جود تو وہ اپنی یہ صلاحیتیں اہل غزہ کی امداد اور بحالی پر صرف کرنے میں کیا امر مانع ہے ؟ اس وقت کہ جب متاثرہ فریق اسرائیل اور امریکہ کیساتھ امن معاہدہ بھی کر بیٹھے،اور بحالی کے کام کی شد و مد سے ضرورت۔ ادھر معلوم نہیں حکومت نے ماحول اتنا خراب کرنے میں عجلت کیوں دکھائی۔جب حکومت کو بردباری، تحمل اور حکمت سے کام لینے کی ضرورت تھی، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے جلتی پر تیل کا کام کر کے درپردہ کس کی خدمت کی ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے