کالم

فلسطین کاحل ناگزیر

جنگ عظیم اول کے اختتام پر جو کہ 1918 میں تباہیوں کے بعد ختم ہوئی ، برطانیہ نے فلسطین کا کنٹرول سنبھالا ، جسے لیگ آف نیشنلز نے تفویض کیا ، لہٰذا س چال بازی کے نتیجے میں انتظامی کنٹرول نے رنگ دکھایا ، جس کی وجہ سے 1923میں اسرائیل کی ریاست کا قیام عمل میں آیا ، فلسطین کی اس وقت کل آبادی بانوے لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور علاقہ بائیس ہزار کلو میٹر ہے ، انتظامی طور پر اسے بارہ ڈویژن میں تقسیم کیا گیا ، فلسطین جغرافیائی طور بہت اہمیت کا حامل ملک ہے ، یہ بحر اقیانوس اور دریائے اردن کے درمیان واقع ہے ، عرب اسے فلسطین کہتے ہیں لیکن بڑی طاقتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیلیوں نے فلسطین کے جن علاقوں پر قبضہ جمالیا اسے اسرائیل کی ریاست کا نام دیا گیا ہے ، 135ممالک فلسطین کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اسرائیل اور یورپی یونین کے علاوہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اسے ماننے کو تیار نہیں ۔ فلسطین غزہ کے مغرب میں بحر اقیانوس ہے جنوب میں اس کی سرحدیں مصر کے ساتھ ملتی ہیں اور شمال مشرق میں اسرائیل واقع ہے ، ویسٹ بینک اردن کی سرحد سے متصل ہے ، تاریخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ فلسطین کی تاریخی اہمیت ہے ، یہ یونانی لفظ فلسٹیا سے مشتق ہے ، ابتداءمیں رومن یونان عرب فاطمیہ سلجوک اور ترک حکومتوں نے اسے اپنے کنڑول میں رکھا لیکن پہلی جنگ عظیم جو کہ 1918میں ختم ہوئی لیگ آف نیشنز نے اس کا انتظامی کنٹرو ل برطانیہ کو دے دیا اور پھر مغرب اور امریکی حکومتوں کی ملی بھگت سے اسرائیل ریاست قائم کی گئی،اس وقت فلسطین کا کافی علاقہ ناجائز طریقے سے اسرائیل کے قبضے میں ہے وہ آہستہ آہستہ پھیلتا چلا جارہا ہے ، اونٹ اور خیمے کے مصداق وہ چاہتا ہے کہ طاقت اور شیطانی منصوبوں کے تحت وہ پورے علاقے پر قبضہ جمالے ، اس مقصد کے حصول کیلئے وہ جنگ و جدال کے حربے بھی استعمال کررہا ہے ، نہ تو اسے انسانی زندگیوں کی اہمیت ہے اور نہ ہی اخلاق اور ضمیر کا اسے پاس ہے ، حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے 1947میں اقوام متحدہ نے جبکہ برطانیہ کے تسلط کو دودہائیاں گزر چکی تھیں ، فلسطین کی تقسیم کا ایک منصوبہ بنایا اور ارض فلسطین کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی ، ایک حصہ اسرائیل اور دوسرا حصہ فلسطین بنانا چاہا ، یروشلم شہر کو جیسے دونوںپارٹیاں اپنا صدر مقام بنانا چاہتی تھیں اسے ایک خاص مقام دیکر بین الاقوامی شہر ڈیکلیئر کرنا چاہا ، اسرائیل نے اس تجویز کی حمایت کی لیکن فلسطین کے جہاد کرنے والے جو 1920 سے برطانیہ اور اسرائیل کیخلاف سینہ سپر ہیں انہیں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا ، حالات کا جائزہ لیتے ہوئے 1948 میں عرب ممالک جن میں اردن ، عراق ، شام ، مصر اور لبنا ن شامل تھے اسرائیل کی چالوں کو روکنے کیلئے جنگ کا آغاز کردیا ، یہ عرب اور اسرائیل جنگ 1949میں ختم ہوئی ، اسرائیل نے دو تہائی علاقہ پر جو کہ برطانیہ کے پلان کے مطابق تھا قبضہ کرلیا ، اردن نے ویسٹ بینک کا کنٹرول سنبھالا ، مصر نے غزہ کی پٹی کو محفوظ کیا ، اس جنگ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کشمکش کے ایک نئے باب کا اضافہ کردیا ، بہر حال 1964میں فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن پی ایل او کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصداس کے تمام علاقے فلسطینی عرب ریاست کا قیام تھا جو کہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر برطانیہ کی انتظامی نگرانی میں تھا جس پر اسرائیل نے امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد سے قبضہ کرلیا تھا لیکن بین الاقوامی سیاست اور سازشوں کی وجہ سے1993 میں اوسلو علامیے کے مطابق پی ایل او نے اسرائیل کے قیام کو تسلیم کرنا تھا ور اس کے نتیجے میں اسرائیل نے پی ایل کو ،لہٰذا پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات بنے جو کہ اپنی وفات 2004تک اسی کے سربراہ رہے ، اسی دوران عرب اسرائیل جنگ نے اسرائیل اور اس کے ہمسایہ ممالک میں بے پناہ تلخیاں پیدا کیں جس کے نتیجے میں اپریل 1967میں شام اسرائیل کی جنگ شروع ہوگئی اسی اثناءمیں سو ویت یونین نے خفیہ اطلاع مصر کو پہنچائی کہ اسرائیل اپنے شمالی بارڈر پر جس کی سرحد شام سے ملتی ہیں ایک بڑے حملے کی تیاری میں فوج جمع کررہا ہے ، اگر چہ یہ اطلاع مکمل طور پر درست نہیں تھی لیکن صدر جمال ناصر نے اپنی افواج جزیرہ میں اتار دیں جنہوں نے اقوام متحدہ کی امن قائم کرنے کیلئے مقیم فورس کو نکال دیا ، اسرائیل نے مصر پر فضائی حملہ جون 1967میں کیا ، دونوں طرف کی افواج سیلف ڈیفنس کلیم کرتی رہیں ، شام اور اردن نے بھی مصر کا ساتھ دیا ، ایک ہولناک جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے غزہ ویسٹ بینک سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا ، 2006میں حماس جو کہ مضبوط گروپ ہے انہوں لیجسلٹو الیکشن میں کامیابی کے بعد فتح گروپ کو شکست دیکر پی ایل او کا کنٹرول سنبھالا ، بہت سے ممالک حماس کو ایک خطر ناک گروپ تصور کرتے ہیں جو کہ اسرائیل کے مکمل خاتمے کی کوشش میں مصروف ہے، اپریل 2014میں فتح گروپ اور حماس متحد ہوکر فلسطین حکومت کے قیام کیلئے رضا مند ہوئے ،فلسطینی عوام نے اپنے ملک کی بقا کیلئے کوششوں میں ہیں اگر چہ اسو قت ان کے کنٹرول میں ویسٹ بینک اور غزہ کی پٹی بھی ہے لیکن اسرائیلی حکومت کی شہر پر اسرائیلی فلسطین میں بھی جبراور استبدائیت سے رہائش پذیر ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اسرائیلی ، فلسطینیوں کو جبراً بے دخل کرکے آباد ہورہے ہیں ، فلسطینی مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں ،خود اسرائیلیوں کا ایک طبقہ فلسطینی باشندوں کو زبردستی بے دخل کرکے خود آباد ہونے کو اچھا نہیں سمجھ رہا لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ۔2017مئی میں حماس نے ایک ڈاکومنٹ ترتیب دیا جس میں انہوں نے تجویز کیا کہ فلسطین کی ریاست کی وہ سرحدیں قائم کی جائیں جو 1967میں تھیں ۔ اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام کی بھی مخالفت کی گئی جسے اسرائیل حکومت نے ماننے سے انکار کردیا۔2018میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل ہوگیا جس کا مطلب یہ تھا کہ یروشلم اسرائیل کی ریاست کا صدر مقام ہوگا، فلسطینی عوام نے غزہ اسرائیل سرحد پر بھر پور احتجاج کیا جس پر اسرائیلی فوج نے بے پنا ہ ظلم کیا ، درجنوں فلسطینی شہید ہوئے ، اس ریجن میں دائمی امن کے قیام کے سلسلے میں عالمی رہنما بھر پور کوشش میں ہیں لیکن اسرائیل قوم جس کی پوری تاریخ اللہ کی نافرمانی پر مشتمل ہے اپنی شیطانی چالوں سے فلسطینی ریاست اور اس کے عوام پر قبضہ کرکے امریکی مدد سے گریٹر اسرائیل کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتی ہے ۔یہ قوم لاتوں کی بھوت ہے ، اپنے مفادات امریکہ جیسے شیطانی ملک سے پشت پناہی سے حاصل کررہا ہے اور توسیع دے رہا ہے ، پائیدار امن کیلئے اسرائیلی اور فلسطینی حکومتوں کے باہمی مشورے سے سرحدوں کی نشاندہی بھی بہت ضروری ہے ، اسرائیل کی ناجائز ریاست جو مغرب اور عالمی طاقتوں کی وجہ سے معرض وجود میں آئی ہے ختم ہوتے نظر نہیں آرہی کیونکہ مسلم ممالک اکٹھے نہیں اور اپنے اپنے مفادات کے حصول کی دوڑ میں لگے ہیں، اس لئے اس مسئلے کا پائیدار حل فلسطینیوں کی جان مال عزت اور بقاکیلئے بہت ضروری ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے