کالم

فٹ بال ورلڈ کپ ،بین القوامی ثقافت یا سیاست

ishrat moeen

دنیا کے کسی بھی خطے کی ثقافت جو نمایاں کرنے میں جہاں زبان، ادب ، فنون اور لباس و پکوان اہم ہوتے ہیں وہیں اس علاقے سے وابستہ کھیل بھی نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ بین القوامی سطح کھیلے جانے والے کھیل ایسے ہیں جو دنیا بھر کے شائقین کی توجہ اور دلچسپی کے لیے مشہور ہیں۔ ان ہی کھیلوں میں انگلستان کا ایجاد کردہ فٹ بال کا کھیل گذشتہ کئی دہائیوں سے اپنے شائقین کی تعداد دنیا کے ہر اس ملک میں بڑھا رہا ہے جو کھیل کو ثقافت اور معیشت کے ساتھ ساتھ اب سیاست میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔ فٹ بال کھیل کے چاہنے والے اس سال یعنی دوہزار بائیس میں فٹبال ورلڈ کپ کے مقابلے دیکھنے کے لیے عرب کے معروف ملک قطر کا سفر کر رہے ہیں۔ جہاں یہ مقابلے اکیس نومبر سے اٹھارہ دسمبر تک منعقد کئے جارئے ہیں۔ انیس سو تیس سے ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ مشرقِ وسطی کا کوئی ملک اس عالمی مقابلے کی میزبانی کر رہا ہے اور ایسا بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ ورلڈ کپ مقابلے موسمِ سرما میں منعقد ہو رہے ہیں۔فائنلز کے لیے بتیس ٹیموں کو چار، چار کے آٹھ گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بارہ دن جاری رہنے والے مقابلوں کے گروپ مرحلے میں روزانہ چار میچ کھیلے جائیں گے اور ہر گروپ سے دو ٹیمیں اگلے مرحلے کے لیے کوالیفائی کریں گی۔اس ٹورنامنٹ کے تمام میچوں کا شیڈول جاننے اور ٹورنامنٹ کے دوران تازہ ترین نتائج دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے کھیلوں کے ابلاغی ادارے قطر میں جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں لیکن مغرب سے آنے والے صحافیوں پر قطر کی سرکار کی خاص نظر اس لیے ہے کہ وہ کھیل کی رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ قطر کی سیاسی اور سماجی صورتحال اور معیشت کو بھی اپنی خبروں میں شامل کرکے انسانیت سوز مظالم اور معاشرتی جبر کو دنیا کے سامنے لاکر قطر کی حکومت اور اداروں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنوا رہے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر سے فٹ بال کے شائقین ورلڈ کپ مقابلے دیکھنے کے لیے قطر پہنچ چکے اور پہنچ رہے ہیں ۔ زیادہ تر شائقین ان ہوٹلوں میں ٹھہر رہے ہیں جنھیں دسیوں ہزار تارکین وطن مزدوروں نے تعمیر کیا ہے۔اِ ن ہوٹلوں کی تعمیر کے حوالے سے قطر نے ان مزدوروں کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا ہے اس پر اسے دنیا بھر کے زرائع ابلاغ اور انسانیت پسند تنظیموں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق قطر نے ورلڈ کپ کے لیے سات بڑے اسٹیڈیم تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک نیا ہوائی اڈہ، میٹرو سسٹم، نئی سڑکیں اور تقریبا سو نئے ہوٹل بنائے ہیں۔اس سٹیڈیم کے ارد گرد ایک پورا شہر بنایا گیا ہے جہاں ورلڈ کپ فائنل کھیلا جائے گا۔قطر کی حکومت کا کہنا ہے کہ تیس ہزار غیر ملکی مزدوروں کی خدمات صرف سٹیڈیم بنانے کے لیے حاصل کی گئی تھیں۔ ان مزدوروں میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان، بنگلہ دیش، انڈیا، نیپال اور فلپائن سے ہے۔گذشتہ سال فروری میں گارڈین اخبار کے مطابق پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ساڑھے چھ ہزار مزدور اس وقت سے ہلاک ہو چکے ہیں جب قطر کو ورلڈ کپ کی ذمہ داری دی گئی تھی اس نے اس حوالے سے تعمیرات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔یہ تعداد قطر میں موجود مختلف ممالک کے سفارت خانوں کے فراہم کردہ اعداد و شمار پر مبنی ہے۔تاہم قطر کی حکومت نے کہا ہے کہ یہ اعداد و شمار درست نہیں ہیں کیونکہ اس دوران ہونے والی تمام اموات ورلڈ کپ سے متعلق منصوبوں پر کام کرنے والے افراد یا مزدوروں کی نہیں تھیں۔ قطری حکومت کے مطابق مرنے والوں میں سے بہت سے افراد ایسے تھے جو گذشتہ کئی برسوں سے قطر میں کام کر رہے تھے اور ان کی اموات بڑھاپے اور دیگر قدرتی وجوہات سے ہوئی ہوں گی۔ حکومت نے کہا کہ اس کے حادثات سے متعلق ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ دو ہزار چودہ اور دو ہزار بیس کے درمیان ورلڈ کپ سٹیڈیم کی تعمیراتی جگہوں پر صرف سینتیس مزدور ہلاک ہوئے، جن میں سے صرف تین مزدوروں کی ہلاکت کام کرتے ہوئے ہوئی ہے ۔ مزدوروں کی عالمی تنظیم یعنی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او)کا کہنا ہے کہ قطر کی حکومت کا اموات کے حوالے سے اندازہ کم ہے۔ قطر میں دل کے دورے اور سانس رکنے یا اکھڑنے کی وجہ سے ہونے والی اموات کو کام سے متعلق شمار کرتا ہی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ ہیٹ سٹروک کی عام علامات ہیں، جو بہت زیادہ درجہ حرارت میں بھاری مشقت کرنے سے ہوتی ہیں۔آئی ایل او نے ورلڈ کپ سے متعلق واقعات کے لیے اپنے اعداد و شمار مرتب کیے ہیں، جو قطر میں سرکاری ہسپتالوں اور ایمبولینس سروسز سے جمع کیے گئے ہیں۔تنظیم کا کہنا ہے کہ صرف گزشتہ برس میں پچاس غیر ملکی مزدور ہلاک اور پانچ سو سے زیادہ شدید زخمی ہوئے ہیں جبکہ دیگر سینتیس ہزار سے زائد کو ہلکے سے درمیانے درجے کے زخم آئے۔بی بی سی عربی نے بھی ایسے شواہد اکٹھے کیے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قطر کی حکومت نے غیر ملکی مزدوروں کی ہلاکتوں پر مکمل معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔برطانوی ابلاغی ادارے نے لکھا ہے کہ جب سے قطر نے سنہ دو ہزار دس میں ورلڈ کپ کی میزبانی کا حق حاصل کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے غیر ملکی کارکنوں کے ساتھ روا رکھنے والے سلوک پر تنقید کی ہے۔سنہ دو ہزار سولہ میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے قطری کمپنیوں پر جبری مشقت کا الزام عائد کیا تھا۔اس میں کہا گیا ہے کہ بہت سے کارکن ناقص رہائش گاہوں میں رہتے تھے، انھیں بھرتی کرنے کی عوض بھاری فیس ادا کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور ان کی اجرت روک دی جاتی ہے اور ان کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے تھے۔ یہ فٹبال کا اب تک کا سب سے متنازع ورلڈ کپ ہے، جس کے بارے میں یہ سوال کیے جا رہے ہیں کہ قطر نے اس کے انعقاد کا حق کس طرح حاصل کیا، قطر میں سٹیڈیمز بنانے والے ملازمین کے ساتھ کیسا سلوک کر رہا ہے اور کیا فٹبال ورلڈ کپ کے انعقاد کے لیے قطر مناسب جگہ ہے بھی یا نہیں؟اِن تمام سوالوں کے جواب سے قبل کئی اسلامی ممالک کے زرائع ابلاغ اپنے برادر ملک کا دفاع بھی کر رہے ہیں لیکن دوسری جانب ان کی یہ امید بھی کم ہوتی جارہی ہے کہ آئندہ ان کے ملک کو بھی اگر فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کا موقع ملے تو وہ کس طرح اپنے معاشرے میں کھیل کی اہمیت اور انسان دوستی کو اجاگر کر پائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے