کچھ لوگ زمین کا نمک ہوتے ہیں۔ زمین کا حسن و رنگینی ان کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور سارا جہان اس نمک سے فیض یاب ہوتا ہے ۔ پروفیسر خورشید احمد بھی برصغیر کا نمک تھے، جس سے صرف برصغیر ہی نہیں پورا جہاں فیض یاب ہوا، خورشید صاحب نے اس جہان رنگ و بو میں اس طرح اپنی انفرادیت برقرار رکھی جس طرح گھی کا ایک قطرہ سمندر میں اپنی انفرادیت برقرار رکھتا ہے۔ پروفیسر صاحب کی وفات کی خبر سنی تو اس وقت میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کے ہمراہ علما کرام کے ایک اجلاس میں تھا، میں نے جب یہ خبر سنائی تو سب نے نے تعزیت کا اظہار کیا، وزیر مذہبی امور نے ان کے بارے میں بہت اچھے کلمات کہے اور سب کو بتایا کہ میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت نے جب سودی معیشت کی بجائے اسلامی نظام معیشت رائج کرنے کی بات کی تو پارلیمانی گروپ سے اس ضمن میں تجاویز مانگی گئیں، اس وقت کی پارلیمنٹ میں بہت سارے علمائے کرام اور ماہرین موجود تھے ، اس حوالے سے بہت سارے سیشن اور اجلاس منعقد کیے گئیلیکن ماسوا ایک بندے کے کوئی بھی ٹھوس تجاویز نہ پیش کر سکا۔ اور وہ بندہ پروفیسر خورشید صاحب تھے۔مجلس میں سے ایک عالم صاحب نے ایک دو نام پیش کیے جو فی الواقع اس وقت سکہ بند علما لیڈر ہیں لیکن سردار محمد یوسف نے انکار کر دیا اور کہا کہ پروفیسر خورشید صاحب کے علاوہ کوئی قابل ذکر نہیں جس نے اس قدر جامع ، مربوط اور قابل عمل تجاویز پیش کی ہوں۔ خورشید صاحب کو یک طرفہ طور پر تو ہم اسکول کے زمانے سے ہی جانتے تھے لیکن اسی طرح کہ جیسے خورشید فلک کو سب جانتے ہیں لیکن وہ کسی کو نہیں جانتا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان سے محبت مجھے خرم مراد کی کتاب لمحات کے مطالعے کے بعد ہوئی
وہ تو وہ ہے، تمھیں ہو جائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوب نظر تو دیکھو
خرم مراد، پروفیسر خورشید، پروفیسر عفور احمد،قاضی حسین احمد، سید منور حسن اس مادی دنیا سے پرے اور دور کے لوگ تھے، لگتا تھا کہ وہ اس دنیا کے لوگ ہی نہیں ہیں۔ لمحات جب چھپی تو ہم طالب علم تھے اور زیادہ تر؛ کتب مانگ تانگ کے مطالعہ کرتے تھے لیکن برادرمحبوب الہی کو ہم نے کہا کہ یہ کتاب خرید کے مطالعہ کرنی ہے۔ یہ ان کتابوں میں سے ہے کہ متعدد مرتبہ مطالعہ کے باوجود تشنگی رہتی ہے۔ خرم مراد مرحوم سے ہماری کوئی ملاقات نہ ہو سکی لیکن آج بھی ایسا لگتا ہے کہ ان سے ہمارا بچپن کا تعلق ہے۔ البتہ ڈاکٹر حسن صہیب مراد سے بہت قربت والا تعلق رہا، ڈاکٹر حسن اپنے والد کا پرتو تھے، بیک وقت استاد، عالم، منتظم، ماہر تعلیم اور ان گنت خوبیوں کے مالک، ان کے ہونہار فرزند ابراہیم حسن مراد اپنے شاندار علمی، مذہبی ورثے کا نہ صرف تحفظ کیے ہوئے ہیں بلکہ اس میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پروفیسر خورشید صاحب پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک ڈیویلوپمینٹ کے ریکٹر رہے اور حسن اتفاق ہے کہ خرم مراد کے پوتے ابراہیم حسن مراد اج کل اس کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر ہیں۔ پروفیسر خورشید اور خرم مراد کو اگر یہ کہا جائے کہ یک جان اور دو قالب تھے تو شاید بے ہو گا۔زمانہ طالب علمی سے ہی اللہ نے ان کو بیش تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہوا تھا ۔اور انھوں نے ان صلاحیتوں کا خوب خوب استعمال کیا۔قریب برس کی عمر میں ان کی ذاتی لاہبریری میں ہزار کتب موجود تھیں۔ اسی زمانے میں انھوں نے ” اسلامی نظریہ حیات” لکھی، تب وہ کراچی یونیورسٹی میں لیکچرر تھے۔ ایک ایک کتاب کا جائزہ لیں تو بات بہت دور تک جاتی ہے۔ لیکن اس کا پیش لفظ جو اس وقت کے شیخ الجامعہ اشتیاق حسین قریشی نے لکھا وہ بھی پروفیسر خورشید کی شخصیت کا پرتو ہے۔ شیخ الجامعہ نے لکھا "ہم اپنے مسلم طلبہ کو بلاتفریق مذھب اسلام کی تعلیم دینا چاہتے ہیں۔ ہم کسی مذہب کی فقہ کی تعلیم انھیں نہیں دیتے۔ ہم اسلام کا درس دینا چاہتے ہیں۔ ہم طلبہ کے دل میں اسلام سے محبت کی آگ سلگانا چاہتے ہیں۔ ہم ان کی شمع ایمان کو فروزاں کرنا چاہتے ہیں۔ فروعی مسائل وہ خود سمجھ کر حل کر لیں گے۔ اسی مقصد کے لیے یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ اللہ اس کوشش کو قبول فرمائے اور اس کو سعادت تاثیر عطا فرمائے۔ "ایک نو آموز لیکچرر کی کتاب کا ایسا پیش لفظ اور لکھنے والا شیخ الجامعہ، اللہ اللہ، کہاں سے لے کر آئیں ایسے لکھنے والے، اور کہاں سیلائیں ایسے شیخ الجامعہ،پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگافسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہیآج کی جامعات میں کیا ہو رہا ہے، ہے کوئی ایسا پروفیسر اور ایسا شیخ الجامعہ، جہاں سے دین اور ملک کی خدمت کرنے والوں کو تیار ہونا تھا وہاں سے محض روبوٹ تیار ہو رہے ہیں۔ پروفیسر خورشید کی سینکڑوں جامد اور لاکھوں زندہ تصانیف ہیں۔اور یہ عمل مسلسل جاری ہے۔پروفیسر خورشید وفاقی وزیر توانائی، ڈپٹی چیرمین پلاننگ کمیشن اور PIDE کے ریکٹر بھی رہے۔ ان کی سب سے نمایاں خوبی ادارہ اور افراد سازی تھی۔ خرم مراد کے ساتھ مل کر اسلامک فاونڈیشن لسٹر کی بنیاد رکھی۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز کی بنیاد رکھی اور یہ ادارے آج ایک تناور درخت ہیں۔ خالد رحمن نے IPS کو بہترین خطوط پر ترقی کی جانب گامزن کیا۔ گزشتہ سال جانے کا اتفاق ہوا اور یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ یہ ادارہ روز افزوں ترقی کر رہا ہے اور اپنی فیلڈ میں نمایاں ترین کام کر رہا ہے۔
کالم
”فکر و عمل کا خورشید ” پروفیسر خورشید احمد
- by web desk
- جون 18, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 59 Views
- 2 مہینے ago
