کالم

قائد اعظم اور اقلیتیں

کسی جمہوری ریاست میں اقلیتوں کی جان ومال اور عزت وآبرو پر سمجھوتہ کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا ۔ پاکستان کا قیام چونکہ ایک جمہوری اور سیاسی عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا لہٰذا لازم ہے کہ یہاں اقلتیں خود کو محفوظ تصور کریں ، قائد اعظم کی حد تک یہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اقلیتوں کو مکمل طور پر مساوی شہری سمجھتے تھے ، مثلا پاکستان کے قیام کے فورا بعد جب بانی پاکستان نے اسمبلی میں تقریر کی تو اس کی صدرات ایک ہنو جوگن نارتھ منڈل کررہے تھے ، بعدازاں ان ہی جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنایا گیا ، پاکستان کی خاص بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اہم عہدووں پر غیر مسلم افراد کی تعیناتی کوئی نئی بات نہیں رہی ، مثلا (1960) میں اے آر آر کار یلسن کو جج کے عہدے پر تعینات رہے ، پھر ایک ہندو جسٹس بھگوان داس کے حصے میں چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ آیا ، ایک اور مسیحی (2009)میں جمشید رحمت اللہ ہائیکورٹ کے جج بنے ، اعتدال مسلم ریاست ہونے کی حثیثت سے پاکستان میں کرسمس کا دن روایتی جوش وخروش کے ساتھ منایا جاتا ہے ، پاکستانی کی کرسچن کمینوٹی میں جذبہ حب الوطنی کسی طور پ دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے کم نہیں ،ہمارے کرسچن بہن بھائیوں کی پاکستان سے محبت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ امن یا جنگ ہر ٓدو صورتوں میں کرسچن برداری دفاع وطن اور تعیر وطن میں پیش پیش ہے ، قیام پاکستان سے لے کر اب تک مشکل کی ہر گھڑی میں ہمارے عیسائی بہن بھائیوں نےجان ومال کی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جہاں دیگر پاکستانیون نے قربانیاں دیں وہی حضرت عیسی علیہ اسلام کے پیروکار بھی اپنے لہو سے اس دھرتی کا قرض اتارتے رہے، پاکستان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں قومی وصوبائی اسمبلیوں سمیت سینٹ میں بھی اقلیتوں کی مخصوص نشستیں مختص ہیں، مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اقلیتی برداری کو قومی تعمیر وترقی کا حصہ یوں بنایا جائے کہ کوئی ابہام نہ رہے ، یہ نقطہ بھی اہم ہے کہ اقلیتوں کو مخصوص نشستیں دینے کے علاوہ ان کے لیے اوپن الیکشن کا دروازہ بھی کھلا ہے تاکہ وہ باآسانی انتخاب میں حصہ لے سکیں، ملک کی چوتھی مردم شماری کے مطابق اقلیتیں ہماری آبادی کا 3.72فیصد ہیں، آئین پاکستان میں اقلتیوں کے حقوق کی محافظ قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی وہ تقریر ہے جس کی مناسبت سے اقلیتی برداری اس دن کو اقلتیوں کے دن کے طور پر مناتی ہیں، محمدعلی جناح نے گیارہ اگست کی تقریر میں کہا تھا کہ : آپ سب آزاد ہیں ، آپ آزاد ہیں مندروں میں جانے کے لیے یا کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے ، پاکستان کی ریاست میں آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا عقیدے سے ہو، اس کا ہمارے اس بنیادی دستور سے کوئی تعلق نہیں ، ریاست کے لیے سب شہری برابر ہیں۔
قائد اعظم کے اسی فرمودات کی روشنی میں آئین پاکستان کے آرٹیکل بیس اے کے مطابق ہر شہری کوئی بھی مذہب اختیار کرسکتا ہے ،۔۔۔۔آرٹیکل بائیس کے کلاز سوم کے مطابق پاکستان کی سرزمین پرموجود کسی بھی کمیونٹی کو نسل، رنگ، زبان یا مقام ِ پیدائش کی بنا پر کسی بھی ایسے سرکاری ادارے میں داخلے سے نہیں روکاجاسکتا جو پبلک فنڈ سے قائم ودائم ہےآرٹیکل تئیس کے مطابق پاکستان کا کوئی بھی شہری ملک کے کسی بھی حصہ میں زمین کی خرید و فروخت کاحق رکھتاہے سوائے ان علاقوں کے جہاں بلاتفریق سب کے زمین خریدنے پرپابندی ہے جیسے خیبر پختوانخوا کا کوئی بھی شہری آزاد کشمیر میں زمین نہیں خریدسکتا۔
جہاں تک ملازمتوں کے مواقع کی بات ہے تو آئین کا آرٹیکل ستائیس اس بات کا ضامن ہے کہ کوئی بھی پاکستانی شہری اگرکسی نوکری کی شرائط پر پورا اترتا ہو تو وہ چاہے پاکستان کے کسی شہر، مذہب، ذات یا رنگ و نسل سے متعلق ہو ا،سے اس ملازمت سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔اسی شق کوآگے بڑھاتے ہوئے حکومت نے سال 2009میں ایک ڈائریکٹو ایشو کیا جس کے تحت پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کیلئے پانچ فیصدکوٹہ مخصوص کیا گیا،اس ڈائریکٹو پر پنجاب، سندھ اور بلوچستان نے فوری عمل کیا جبکہ کے پی کے نے پہلے اسے بتدریج بڑھاتے ہوئے اس شرح کو تین فیصد تک جا پہنچایا۔ قابل تحسین یہ ہے کہ حکومت محض کاغذی کارروائیاں نہیں کرتی بلکہ اقلیتوں کے متعلق مختلف موقعوں پر ٹھوس اعدادوشماربھی پیش کیےجاتے ہیں ، بطور وزیر اعظم شبہازشریف سمجھتے ہیں کہ تعمیر وترقی کا سفر اس وقت ادھوار ہے جب تک ہم اقلتیوں کو ان کے بنیادی آئینی اور سماجی حقوق نہیں دیتے ، تاریخی طور پر اس سچائی سے بھی انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ روس کے افغانستان پر حملے بعد جو پالیساں روا رکھی گیں ان کے منفی اثرات نے پاکستانی کی سیاست، معاشرت اور حتی کی معیشت پر بھی پڑے ، مثلا روس سے لڑنے کے لیے دنیا بھر سے شدت پسند نوجوانوں کی پاکستان آمد نےا ایسی انتہاپسندی کو ہوا دی جو اقلیتوں کے تحفظ کی قائل نہ تھی، آج بھی طالبان حکومت کی بعض پالیساں سرحد پار مخصوص سخت گیر نقطہ نظر کو پروان چڑھاتی رہی ہیں ، نائن الیون کے بعد امریکہ کی افغانستان میں آمد بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر انتہاپسند عناصر کی سرگرمیوں میں اضافہ کا باعث بنی ، مقام شکر ہے کہ پاکستانیون کی اکثریت ملک کو ایسی جدید اسلامی ریاست بنانے کی خواہشمند ہے جس میں اقلیتوں کے لیے امن اور ترقی کو فروغ ملے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے