کالم

قانون شکن عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں

riaz chu

نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے زیر قیادت راولپنڈی میں پنجاب کابینہ کے اجلاس میں صوبے میں عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ مذہب کے نام پر شر انگیزی پھیلانے والے عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور ایسے عناصر کی فنانسنگ روکنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کئے جائیں گے۔
شرپسندوں کے سہولت کاروں کے خلاف بھی گھیرا تنگ کیا جائے گا اور قانون شکن عناصر سے کسی قسم کی رعایت نہیں ہو گی۔ محسن نقوی نے شرپسندوں اور جرائم پیشہ گینگز کے خلاف بھرپور کریک ڈاو¿ن کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی گروہ یا جتھے کو صوبے کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اجلاس میں نجی ہاو¿سنگ سکیموں میں مقیم گینگز اور مافیاز کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاو¿ن اور مری میں ٹی بی ہسپتال میں جنرل ہسپتال بھی بنانے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعلیٰ نے راولپنڈی رنگ روڈ پراجیکٹ کو اعلی معیار کے مطابق جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی جبکہ کچہری چوک ری ماڈلنگ پراجیکٹ پر کام شروع کرنے کی منظوری اور ڈوڈھچہ ڈیم اور نالہ لئی منصوبوں پرکام بارے بریفنگ دی گئی۔
وزیر اعلیٰ عوام کو ریلیف فراہم کرنے اور محکموں کی کارکردگی کو بہتربنانے کےلئے انقلابی اقدامات کر رہے ہیں۔امن و عامہ کی فضا برقرار رکھنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ عوام کے جان و مال کے تحفظ سے بڑھ کر کوئی ترجیح نہیں ہوسکتی لہٰذ ا محسن نقوی نے ہدایت کی کہ صوبہ بھر میں عوام کے جان و مال کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے تمام تر اقدامات کئے جائیں۔بلاشبہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ، جرائم کی روک تھام، جرائم پیشہ افراد کو کیفر کردار تک پہنچانا اور عوام الناس میں احساس تحفظ پیدا کرکے امن و امان کا بحال رکھنا پولیس کے اولین فرائض میں شامل ہے۔ اگر ہر پولیس افسر اور ماتحت اپنے فرائض پر خلوص ہو کر دیانت داری اور لگن سے ادا کرے تو نہ صرف پولیس کا وقار عوام میں بلند ہو سکتا ہے بلکہ امن و امان کی صورتحال بھی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ اجلاس میں پنجاب کے بڑے ہسپتالوں میں ہاسپٹل مینجمنٹ انفارمیشن اینڈ کیو مینجمنٹ سسٹم کے نفاذ اور فنڈز کے اجرائ‘ بہاولنگر، فیصل آباد اور لاہور میں ڈسٹرکٹ کنزیومر کورٹس میں پریذائیڈنگ آفیسرز کی تعیناتی‘ رحیم یار خان کے علاقے خان پور میں کیڈٹ کالج کو آپریشنل کرنے‘ کابینہ نے سنٹرل لائبریری بہاولپور کی اپ گریڈیشن اور تزئین و بحالی‘ گورنمنٹ آف پنجاب، ہرن فاو¿نڈیشن اور ہوبارہ فاو¿نڈیشن کے درمیان ایم او یو میں دوسری ترمیم‘ راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی گورننگ باڈی کے ممبران کی نامزدگی‘ کوہ سلیمان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بورڈ کیلئے چیئرپرسن اور ٹیکنیکل ماہرین کی نامزدگی کی منظوری دی۔نگران وزیراعلی نے سپیشل ایجوکیشن داخلہ مہم کا باقاعدہ افتتاح کر تے ہوئے کہا کہ سپیشل بچوں کی خدمت کے کار خیر شریک تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ سپیشل بچوں کا خیال رکھنا ہمارا دینی اور دنیاوی فرض ہے۔ جوہر ٹاو¿ن اور دیگر علاقوں میں نئے سپیشل سنٹر بنا رہے ہیں۔ سپیشل ایجوکیشن کے ہر پراجیکٹ کو بلا تاخیر منظور کیا جائے گا۔ سپیشل بچوں کے لئے کام کو فرض و عبادت سمجھ کر کیا جائے گا۔محسن نقوی نے گورنمنٹ پائلٹ سکو ل وحدت روڈ کے دورے پر کہا کہ حالات دیکھ کر ذاتی طور پر بہت تکلیف ہوئی۔ پائلٹ
سکول وحدت روڈ میں 1650 بچے ہیں اور 60ٹیچرز تعینات ہیں۔ پائلٹ سکول وحدت روڈ کے 60ٹیچرز میں سے 35الیکشن کمیشن کی ڈیوٹی اور باقی چھٹیوں پر ہیں۔ پائلٹ سکول وحدت روڈ کے 1650 طلبہ کو 10سے 15ٹیچرز پڑھا رہے ہیں۔ پائلٹ سکول کا معیار انتہائی ابتر ہے اور ہم لوگ ہی اس کے ذمہ دارہیں، بچوں کا کوئی قصور نہیں۔ سکول کے حالات ٹھیک کرنا ہمارا فرض ہے۔ معیار تعلیم اور سکول کی حالات کی ابتری کا ذمہ دار محکمہ تعلیم، سیکرٹری اور منسٹر بھی ہیں۔ پائلٹ سکول وحدت روڈ میں اختر رسول، قاری صداقت علی، جنرل ظہیر، جنرل بلال اور جنرل نوید انجم بھی زیر تعلیم رہے۔ پائلٹ سکول وحدت روڈ کے ساتھ جتنا بدترین سلوک کیا جا سکتا تھا، کیا گیا۔ حالات انتہائی برے ہیں۔ فلٹریشن پلانٹ کو چیک کیا، بچوں کو پانی کے نام پر زہر پلایا جا رہا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے کلاس روم کا دورہ کیا تو ایک کلاس میں جا کر معلوم ہوا کہ بچوں کا اسلامیات کا پیپر ہے اور انہوں نے کچھ پڑھا ہی نہیں۔ کتابیں اور کاپیاں خالی پڑی ہوئی ہیں لیکن پڑھانے والا کوئی نہیں۔ بچوں نے بتایا کہ اگر کلاس میں ٹیچرز آئیں تو موبائل پر لگے رہتے ہیں یا سو جاتے ہیں۔ پائلٹ سکول وحدت روڈ کی اس بری حالت کا ذمہ دار میڈیا بھی ہے کیونکہ انہوں نے اس مسئلے کو کبھی اٹھایا ہی نہیں۔ میڈیا جب کسی کام کے پیچھے پڑجاتا ہے تو اس کا پوری طرح پیچھا کرتا ہے۔ فرسٹ اور سکینڈ ائیر کے لئے 7سالوں میں ایک ٹیچر بھی تعینات نہیں ہوا۔ صرف اسی سکول کی بدترین حالت پورے محکمہ تعلیم کی عکاسی کرتی ہے۔ محکمہ تعلیم میں ساڑھے پانچ لاکھ ملازمین ہیں، سکول ٹھیک نہیں کر سکتے یا اس طرح سے چلانے ہیں تو بند کر دئیے جائیں۔ یہ ہمارے لئے سبق ہے کہ دفتر میں بیٹھ کر اچھے رزلٹ نہیں آتے۔ ہماری بھی یہ ناکامی ہے کہ ہمیں 8ماہ ہو گئے ہیں اور اس سکول کا آج پتہ چلا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے