کالم

قرضے اوراشرافیہ

ajaz-ahmed

ایک رپورٹ کے مطابق 2022 میں سری لنکا کے ذمے آ ئی ایم ایف کے 8.6 ارب ڈالر اور انٹر نیشنل بانڈ کے ایک ارب ڈالر ،کل 9.6 ارب ڈالر قسط واجب الادا تھی ۔ سری لنکا کے پاس ادائیگی کےلئے اتنی رقم نہیں تھی نتیجتاً 9 ارب ڈالر قسط عدم ادائیگی کی وجہ سے سری لنکا کوڈیفالٹ یعنی دیوالیہ ہونا پڑا۔ زیادہ تر تجزیہ نگار دیوالیہ پن کو اتنا زیادہ سنجیدہ مسئلہ نہیں سمجھتے مگر حقیقت یہ ہے کہ کسی ملک کے ڈیفالٹ سے ریاست اورعوام کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے ۔پبلک کی زندگی بےروزگاری، مہنگائی صحت سہولیات کی نہ ہونے کی وجہ سے اجیرن بن جاتی ہے۔ سری لنکا ڈیفالٹ کی وجہ سے نائیجیریا، جرمنی، اور قبرص میں ہائی کمیشن اور عراق ، ناروے ، آسٹریلیا اور دوسرے کئی ممالک میں سفارت خانے بند کر دئے گئے۔ اسی طرح کئی ممالک کے ساتھ لنکن رابطہ منقطع ہوکے رہ گیا۔ سری لنکا ی تاریخ میں سخت اقتصادی بحران کی وجہ سے خوراکی ایمرجنسی نافذ کی گئی۔تقریبا ً1000 سے زیادہ بیکریاں بند کی گئیں ۔ مہنگائی اپنی عروج پر ہوگئی ۔ خوراکی اشیاء25فیصد مہنگی، نان فو ڈ آئیٹم 11 فیصد ، سرخ مرچ 65 فیصد ، آلو 75 فیصد اور چاول 65 فیصد مہنگی ہوگئی۔ سری لنکا کے پیران ڈینیا ٹیچنگ ہسپتال میں ادویات کی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کے سرجریز روک دی۔ 20 سے 22 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ڈاکٹر موبائل کی روشنی میںمریض چیک کرتے اور سرجری کرتے۔ بجلی ، گیس کی کمی، ادویات کی عدم دستیابی ، لیبا رٹری کیمیکل اور دوسری ضروری اشیاءنہ ہونے کی وجہ سے ہسپتال لیبا رٹریز ، ایکسرے ، الٹراساﺅنڈ بند کئے گئے ۔ سری لنکا میں ہسپتالوں میں طبی خدمات نہ ہونے کی وجہ سے یہ کورونا سے 100 چند بڑا سانحہ سمجھا جاتا ہے۔صحافت جو معاشرے کی آنکھ اور کان ہوتے ہیں معاشی اور مالی بد حالی کی وجہ سے ملک کے بڑے بڑے اخبارات The Island اورDivonic کی اشاعت کاعذ کی عدم دستیابی کی وجہ سے اور کئی الیکٹرانک چینلز بند کئے گئے۔تعلیمی نظام درہم بر ہم ہوکے رہ گیا۔ سکول اور کالجوں میں کمپیوٹر ٹونر، سیاہی، کاعذ عدم دستیابی کی وجہ سے مڈ ٹرم امتحانات ملتوی کئے گئے۔سری لنکا کی درآمدات انتہائی کم ہوئی اور اسکی جگہ بھارت اور دوسرے کئی ممالک نے لی ۔انٹرٹینمنٹ اینڈ سپورٹس کم سے کم ہوکر رہ گئی ۔ مشہور عالم انٹرنیٹ ٹی وی سروس پراویڈر SLT,PEO TVعدم ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے سری لنکا میں اپنے سروسز بند کر دیں۔اگر ہم تجزیہ کریں سری لنکا دیوالیہ پن کے بہت سارے وجوہات ہیںمگر ان میں سب سے اہم وجہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کابے تحاشاحصول تھا ۔ جو اسکی ملکی آمدن سے زیادہ تھا۔سری لنکا کا کل قرضہ سری لنکا کے کل آمدن کا 120فی صد رہا۔ زیادہ تر مغربی دانشوروں کا خیال ہے کہ سری لنکن قرضہ چین کی وجہ سے بڑھا مگر چین سے لیا گیا قرضہ سری لنکا کے کل قرضے کا 10فیصد ہے۔زیادہ تر قرضہ سری لنکا کے معزول صدر پکسے کے دور میں2004 کے بعد لیا گیا ہے۔ سری لنکا کے ڈیفالٹ کا دوسرا اہم وجہ اشرا فیہ کی شاہ خرچیاں تھیں۔تیسری وجہ یہ تھی کہ سری لنکا کے سابق صدر راجہ پکسے نے عوام کو ٹیکس میں کمی کر د ی جس سے ٹیکس دہندگان کی تعداد 33.5فیصد کم ہوگئی۔اسی کمی کو پورا کرنے کےلئے صرف سال 2022 میں ما رکیٹ میں 450 ارب روپے پھینکے گئے۔جس افراط زر اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا۔ ایک اور اہم بات زراعت کو آرگینک کیا گیا۔ کھیتوں میں کیمیاوی کھاد اور اشیاءکے بجائے دیسی اور آرگینگ یعنی قدرتی کھاد کا استعمال تھاجسکی وجہ سے مصنوعی کیمیاوی کھاد اور ایگروکیمیکل پر پابندی لگادی گئی نتیجتاً زراعت کی مد میں 425 ملن ڈالر کا نقصان ہوا۔ چائے اور چاول کی فصلیں بہت کم ہوئیں ۔ مالی بحران کی وجہ سے سمندر پار سری لنکن نے بینکوں کے ذریعے ترسیلات زر بند کر دئے نتیجتاً سال 2022 میں ترسیلات زر میں بہت کمی واقع ہوئی جس سے سری لنکا کی معیشت کو بڑادھکچہ لگا ۔سری لنکا ملک کی کل آمدنی میں 10فیصد دارو مدار سیاحت پر ہے ۔ سال 2019 میں ایسٹر بمبنگ کی وجہ سے سیاحت میں بہت کمی واقع ہوئی۔جس سے سری لنکن معیشت بری طر ح خراب ہوگئی ۔ روس، سری لنکا چائے اور سیاحت کا بڑا مارکیٹ ہے اور سری لنکا یہ دونوں شعبے روس اور یوکرائن جنگ کی وجہ سے بُہت متا ثر ہوئے ۔ بہر حال ان تمام فیکٹر میں سب سے اہم عنصر جو سری لنکا ڈیفالٹ کا وجہ بنا وہ آئی ایم ایف سے زیادہ سے زیادہ قرضے کا حصول تھا ۔ جس راستے پر سری لنکا چلتا ہوا تباہ وبرباد ہوا اسی راستے پر پاکستان بھی رواں دواں ہیں ۔ اندازے کے مطابق پاکستان کا قرضہ بھی ملک کی کل آمدنی کا 90 فیصد کے قریب ہے اور ابھی آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کےلئے بات چیت جاری ہے اور آئی ایم ایف آرڈر کی روشنی میں عوام پر بجلی، گیس، تیل ، خواراکی تیل کے بم اور میزائیل گرائے جارہے ہیں ۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے جب 2008 میں حکومت سنبھال لی تو اُس وقت وطن عزیز کا قرضہ 6 ہزار ارب روپے تھا ۔ 5 سال اقتدار میں رہنے کے بعد یہ قرضہ 16 ہزارارب( فی کس36 ہزار روپے سے 88 ہزار روپے) تک پہنچ گیا ۔ 2013 میں جب نواز شریف نے اقتدار سنبھالی تویہ قرضہ 16000کا قرضہ 30000 ارب روپے تک (فی کس 88 ہزار روپے سے 1 لاکھ 44 ہزار روپے تک)پہنچ گیا ۔اور جب عمران خان نے 2018 میںاقتدار سنبھال لی تو یہ قرضہ 40 مہینے میں 52000 ارب روپے( فی کس 2لاکھ 28 ہزار تک )پہنچ گیا ۔پی پی کے دور میں قرضے میں 5 ارب روزانہ کے حساب سے اضافہ ہوا جبکہ مسلم لیگ کے دور میں 8 ارب روپے اور عمران خان کے د ور میں قرضہ 17ارب روپے یومیہ تک پہنچ گیا۔ قرضے تو سارے ممالک لیتے ہیںمگر وہ اپنے قرضوں سے ملکی ترقی کے کام کرتے ہیں جبکہ اسکے بر عکس ہمارے قرضے اشرافیہ کے بیرونی ذاتی اکاﺅنٹس میں چلے جاتے ہیں۔ جس سے ملک مزید تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ جب سری لنکا کی طرح ہم دنیا سے قرضے لیتے رہیں گے تو ہمارے مقدر میں اللہ نہ کرے دیوالیہ پن لکھا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے