کالم

قومی المیہ!

پاکستانی نظام کے سیاسی مسخروں نے عوام کو مہنگائی، خوف اور بھوک کے تحفے کے اور کچھ نہیں دیا ہے جب بھی انہیں ضرورت ہوتی ہے وہ عوام کے سڑکوں پر نکلنے کی بات ضرور کرتے ہیں لیکن ان کے پاس عوام کے بنیادی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے اس بنا پر عوام نہ سڑکوں پر نکلتے ہیں اور نہ جمہوریت اور آمریت میں ان کی دلچسپی ہے ان کیلئے وہی لیڈر اچھا ہے جو ان کے بنیادی مسائل حل کرسکے۔گزشتہ تہتربرسوںمیںپاکستان پر مسلط نظام نے داﺅ وپیچ تو بہت کھائے ہیں اور روپ بدلنے میں کافی شہرت حاصل کی ہے اگرچہ اس کا حقیقی چہرہ چھپا ہوا ہے اور طاقت کی ڈوری جس کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ کبھی سامنے نہیں آتا ہے ہم نے اس نظام کو عسکری وردی ہی میں دیکھا ہے اس کے علاوہ یہ نظام کبھی واسکٹ اور شیروانی کی نمائش کرتا ہے اور کبھی کوٹ پینٹ کی صورت میں سامنے آتا ہے جب بھی یہ نظام اپنا رنگ بدلتا ہے تو غریب آدمی اگر چہ خوشی سے شادیانے بجاتا ہے ۔یہ ہمارا ایک قومی المیہ ہے کہ جو روٹی اور کپڑ ا اور مکان کی بات کرتا ہے اوسے تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے اور اسے سوشلسٹ اور کیمونسٹ وغیرہ قرار دیکربدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کےخلاف فتوے اس طرح داغے جاتے ہیں جس طرح میزائل داغا جاتا ہے اور اسے پھانسی وغیرہ دینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ہے جس کی مثالیں موجود ہیںاور جو فتویٰ دینے والے ہیں وہ اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ انسان روح اور جسم دونوں سے مرکب ہے اوردونوں کے تقاضے الگ الگ ہیں ۔ اس انسان نے اسی سوسائٹی میں زندگی گزارنی ہے اور یہاں پنا وقت پورا کرنا ہے اسکے روح کے بھی کچھ تقاضے ہیں اور جسم کے بھی کچھ تقاضے ہیں انسان نے ان دونوں سے نمٹنا ہے اپنے مادی تقاضوں کو پورا کئے بغیر انسان معاشرے میں اپنی زندگی گزانے کی نشوونما جاری نہیں رکھ سکتا ہے روٹی کپڑا اور مکان اور بود وباش ۔اس وقت ہمارے سیاسی لیڈروں کو عوام سے یہ شکوہ ہے کہ وہ ان کی کالو ں پر سڑکوں پر نہیں نکلتے ہیں ، عوام ہیں کہ وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے ایک تو اب انہیں خود کش دھماکوں سے ڈر لگنے لگ گیا ہے کیونکہ ان دھماکوں میں زیادہ تر غریب عوام ہی نشانہ بنتے ہیں اور ان کو دال روٹی کا بھی مسئلہ ہوتا ہے اورانہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنا بھی ہوتا ہے کیونکہ ان کی ایک دیہاڑی کے ضائع ہونے سے ان کے گھر کا بجٹ متاثر ہوتا ہے اور پاکستانی عوام یہ بھی جاننے لگے ہیں کہ ان سیاسی لیڈروں نے انہیں کیا دیا ہے سوائے غربت اور مہنگائی کے اور عوام یہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ ہمارے یہ رہنماﺅں اور سیاسی کردار بشمول سیاسی مذہبی لیڈران سب کے سب نو آبادیاتی نظام کی گلی سڑی لاش کے وارث اپنے مفادات کیلئے ایک دوسرے پر غراتے ہیں اور اپنے مفادات کیلئے یہ عناصر عوام کو استعمال کرتے ہیں ۔ ان سے بہتر مستقبل کی توقع رکھنا بھی حماقت ہے کیونکہ نہ تو ان کا نصب العین ہے اور نہ ان کے پاس کوئی حکمت عملی ہے بلکہ یہ سامراج کی چھتری کے نیچے عوام کا استحصال کرنے میں مصروف ہیں اور مال جمع کرنا اور قومی خزانہ پر ہاتھ صاف کرنا ان کی سیاست کا وطیرہ ہے اور یہی ان کا مشن ہے جس پر سب گامزن ہیں ۔وطن عزیز میں قدرت نے کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ یہاں بہتے ہوئے دریا، سرسبز جنگلات، زرخیز اراضی اور زمین میں چھپے معدنیات اور جواہرات کی کمی نہیں ہے لیکن ذاتی مفادات اورر ناقص حکمت عملیوں اور کمیشن کے عوض کئے ہوئے معاہدوں نے پوری قوم کو بھکاری بنایا ہوا ہے ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کے قرضہ جات نے ملک کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے غربت اور مہنگائی اور بیروزگاری کو ختم کیا جائے عوام کو نہ جمہوریت سے دلچسپی ہے اورنہ آمریت سے بلکہ عوام کو ایک ایسے صالح نظام کی ضرورت ہے جو عوام کے مسا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri