برطانوی ہاو¿س آف لارڈز کے تاحیات رکن لارڈ قربان حسین پارلیمنٹ میں لبرل ڈیموکریٹس پارٹی کے رکن کے طور پر بڑا فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی بنیادی ذمہ داریوں میں ایوان بالا میں قانون سازی کا جائزہ لینا، مباحثوں میں حصہ لینا، اور اہم مسائل جیسے انسانی حقوق خاص طور پر کشمیر کےساتھ دیگر بین الاقوامی اور قومی معاملات پر توجہ مرکوز کرنا شامل ہیں۔ انہوں نے سیاسی پناہ گزینوں کےلئے خاص طور پر حالیہ ماہ و سال میں انسانی بحرانوں اور انسانی حقوق پر مباحثوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔وہ اسلام کے بارے میں پائے جانے والے منفی رجحان کےخلاف بھی ہمیشہ کھل کر آواز آٹھاتے ہیں انہوں نے غزہ میں انسانی صورتحال اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کی حالت زار پر متعدد بار ہاو¿س آف لارڈز میں گفتگو کی ہے۔وہ پارلیمنٹ میں آل پارٹی پارلیمانی گروپ (APPG) برائے بنگلہ دیش کے افسر کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں جس کا مقصد برطانیہ اور بنگلہ دیش کے درمیان تفہیم اور تعاون کو فروغ دینا ہے۔ ان کا کام برطانیہ اور بین الاقوامی سطح پر سماجی اور سیاسی چیلنجز کو حل کرنے کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔لارڈ قربان حسین جنہیں لارڈ حسین آف لوٹن کے نام سے جانا جاتا ہے وہ 1956 میں آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی میں پیدا ہوئے بعد میں وہ برطانیہ منتقل ہوئے ابتدائی طور پر انہوں نے محنت مزدوری کی جبکہ بعد میں سیاست میں سرگرم ہوگئے انہوں نے ابتدا میں لیبر پارٹی کے رکن کے طور پر کام کیا۔ 2003 میں عراق جنگ میں لیبر پارٹی سے اختلاف کے سبب انہوں نے برطانیہ کی تیسری بڑی پارٹی لبرل ڈیموکریٹس میں شمولیت اختیار کرلی۔ وہ مختلف عہدوں پر فائز رہے جن میں لوٹن بارو کونسل میں بطور ڈپٹی لیڈر خدمات شامل ہیں۔لارڈ حسین 2011 میں ہاو¿س آف لارڈز کے رکن بنے وہ سابق ڈپٹی پرائم منسٹر نیک کلیگ کے دست راست بھی رہے انہیں انسانی حقوق خاص طور پر کشمیر تنازعہ پر اور برطانیہ اور پاکستان کے تعلقات کو فروغ دینے میں انکی کوششوں کےلئے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ انکی خدمات کے اعتراف میں انہیں 2020 میں پاکستان کا بڑا شہری ایوارڈ ستارہ قائداعظم سے نوازا گیا۔انہوں نے بین الاقوامی تنظیموں جیسے کہ COMSATS کےساتھ کام کیا ہے تاکہ برطانیہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان سائنس اور ٹیکنالوجی کے تعلقات کو مضبوط بنایا جا سکے۔لارڈ قربان حسین کو ایک اصول پسند اور ہمدرد شخصیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جو انصاف اور انسانی فلاح و بہبود کے مقاصد کےلئے مضبوط عزم رکھتے ہیں جو ان کے اخلاقی اصولوں اور اچھی حکمرانی کے لیے وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔لارڈ قربان حسین کشمیری عوام کے حقوق کی وکالت میں بے حد سرگرم ہیں۔ ان کی یہ جدوجہد ان کی گہری ہمدردی اور حساس عالمی مسائل پر شعور اجاگر کرنے کی وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔لارڈ قربان حسین جہاں مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کےساتھ ہونے والی بدترین انسانی حقوق کی پامالیوں پر ہمیشہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کھل کر آواز اٹھاتے ہیں وہاں پاکستان کی کشمیر پالیسی اور آزاد کشمیر کے لوگوں کے حقوق کےلئے بھی ہمدردانہ طور پر تجاویز دیتے ہیں اور نہ صرف کشمیریوں کے مسائل کے حل کےلئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں بلکہ پاکستان کے مفادات کا بھی تحفظ کرتے ہیں لارڈ قربان حسین اورسیزز پاکستانیوں کی بھی کھل کرنمائندگی کرتے ہیں وہ حالیہ ماہ و سال میں پاکستان میں جاری سیاسی، معاشی، داخلی اور خارجی عدم استحکام کے بارے میں اتنے ہی متفکر اور مضطرب ہیں جتنا عام پاکستانی ہے کاش پاکستان کے ارباب اختیار کو حقیقت حال کا ادارک ہو کہ اوورسیز پاکستانی کس طرح پاکستان اسکے اداروں اور کنٹرولڈ میڈیا سے عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں جن کا اعتماد بحال کرنا ملک کےلئے منفعت بخش ہے پاکستان کو جہاں لارڈ قربان حسین سمیت اوورسیز پاکستانیوں کو اپنا اثاثہ سمجھنا چاہیے اور انکا اعتماد بحال کرنا چاہئے بلکہ ملک کے اندر افراتفری کو ختم کرنی چاہیئے لارڈ قربان حسین برطانیہ کے جمہوری نظام کی وجہ سے آج مسلمانوں، پاکستانیوں اور کشمیریوں کی توانا آواز ہیں یہاں ادارے مضبوط ہیں انصاف اور قانون کی بالادستی ہے جس سے سب مستفید ہوتے ہیں یہ جمہوریت، قانون اور انصاف ہی کا حسن ہے کہ ایک عام آدمی بھی ترقی کرسکتا ہے لارڈ قربان حسین پاکستان اور برطانیہ کی دوہری شہریت رکھتے ہیں برطانوی قانون اس کی اجازت دیتا ہے اور انکی دوہری شہریت انکی ترقی اور ذمہ داریوں میں کوئی رکاوٹ نہیں۔لارڈ قربان حسین میرپور انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی تعمیر کےلئے برطانوی کشمیری کمیونٹی کی جانب سے فوکل پرسن بھی گزشتہ ماہ نامزد کیے گئے ہیں انکی سربراہی میں میرپور انٹرنیشنل ائیرپورٹ موومنٹ کے ایک نمایندہ وفد نے پاکستان کے ہائی کمیشنر ڈاکٹر محمد فیصل سے بھی ملاقات کرچکاہے اس ملاقات میں میرپور ائیرپورٹ کی تعمیر کےلئے 11ہزار برٹش کشمیریوں کے دستخطوں سے ایک پٹیشن بھی حکومت پاکستان کو دی ہے جس میں میرپور ائیرپورٹ کی تعمیر کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ میرپور کے لوگوں کا ائیرپورٹ کا مطالبہ جائز ہے یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ اسکی منصوبہ بندی کرے کہ یہ کب اور کیسے ممکن ہوگا۔