کالم

لاہور تا دہلی ۔خواتین وزرائے اعلیٰ

مبصرین کے مطابق یہ امر خاصا دلچسپ ہے کہ ایک ماہ قبل دہلی کی نئی وزیر اعلیٰ ’ریکھا گپتا“ کا انتخاب عمل میں آیاتھا ۔ یاد رہے کہ ریکھا گپتا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ایک نمایاں سیاست دان ہیں۔ وہ دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کی سابق صدر رہ چکی ہیں اور بی جے پی کی قومی ایگزیکٹو کی رکن اور دہلی یونٹ کی جنرل سیکرٹری کے عہدوں پر بھی فائز رہی ہیں۔ 2025 کے دہلی اسمبلی انتخابات میں، ریکھا گپتا نے شالیمار باغ سیٹ سے پہلی بار الیکشن لڑا اور عام آدمی پارٹی کی امیدوار بندنا کماری کو 29,595 ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔یاد رہے کہ بی جے پی نے 27 سال بعد دہلی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی، جس کے نتیجے میں ریکھا گپتا کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ ریکھا گپتا دہلی کی چوتھی خاتون وزیر اعلیٰ ہیں۔ یہاں اس امر کا تکذکرہ بھی بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کے ہمسائیہ ملک بھارت میں اس سے پہلے بھی تین بار خواتین وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہ چکی ہےں۔پہلی بار 1998میں سشما سوارج دہلی کی وزیر اعلیٰ رہےںتو اس کے بعد 15سال تک شیلا ڈکشت وزیر اعلیٰ رہیں اور 17ستمبر 2024کو ”آتشی “نے دہلی کی نئی وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا۔اس سارے معاملے کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ آتشی کے والد اور والدہ دونوں ان 16افراد میں شامل تھے جنہوں نے شہید افضل گرہ کی پھانسی کی سزا کےخلاف رحم کی اپیل دائر کی تھی اور اس سلسلے میں باقاعدہ مظاہرے بھی کیے تھے۔اس تناظر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دہلی میں گورنر کی بجائے لیفٹیننٹ گورنر انتظامی سربراہ ہوتا ہے اور دہلی کے وزیر اعلیٰ کے پاس نسبتاً کم اختیارات ہوتے ہےں ۔یہ بات بھی خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ بھارتی صوبے تامل ناڈو میں جے للتا نامی خاتون دو مرتبہ تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ رہی ہےں علاوہ ازیں ممتا بنیر جی اس وقت بھی مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ہےں اور رابڑی دیوی بھی صوبہ بہار کی وزیر اعلیٰ رہی ہےں۔ دوسری جانب یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہےں کہ مریم نواز پچھلے 13ماہ سے انتہائی موثر ڈھنگ سے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے فرائض انجام دے رہی ہےں اور انہوں نے انتہائی مختصر عرصے میں ملک بھر میں اپنی کارگردگی کا لوہا منوایا ہے خاص طور پر اپنا گھر اپنی چھت جیسے بڑے منصوبے کا جس طرح سے آغاز ہوا وہ ایک قابل تحسین عمل ہے ۔اس تمام تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ خواتین کو با اختیار بنانے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہی ہےں ۔اسی پس منظر میں غیر جانبدار حلقوں نے اس امر کو انتہائی خوش آئند قرار دیا ہے کہ معاشی اور معاشرتی سطح پر کافی دباو میں ہونے کے باوجود پنجاب حکومت نے ایک ایسے منصوبے کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے جس سے عام شہریوں کو بہت زیادہ امیدیں اور توقعات وابستہ ہیں اور ہر خا ص و عام بجا طور پر یہ توقع کر رہا ہے کہ اسے بھی رہنے کو اپنی چھت میسر آجائے گی۔یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ ہر ذی شعور کا یہ بچپن سے خواب ہوتا ہے کہ اسے رہنے کیلئے چھوٹی سی چھت میسر آجائے جسے وہ بلاشرکت غیرے اپنا کہہ سکے۔اسی ضمن میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے گزشتہ برس 21اگست کو ’اپنا گھر اپنی چھت اسکیم‘ کا افتتاح کیا تھا جس کے تحت عوام ایک سے 10 مرلے تک مکان کے لیے سود سے پاک قرض حاصل کر سکیں گے۔اس تمام معاملے کی تفصیل کچھ یو ں ہے کہ اس اسکیم کے تحت شہری علاقوں میں ایک سے 5 مرلہ زمین پر 15 لاکھ روپے قرض ملے گا جبکہ دیہی علاقوں میں ایک سے 10 مرلہ تک زمین پر 15 لاکھ قرض ملے گا اور قرض کی اقساط 7 سال میں ادا کرنا ہوں گی، پہلے تین ماہ قرض کی کوئی قسط ادا نہیں کرنی جبکہ زیادہ سے زیادہ قسط 14 ہزار روپے ہو گی ۔ ہم گھر بھی بنا رہے ہیں، ان گھروں کی تعمیر جلد شروع کررہے ہیں۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے معاشرتی اور معاشی ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ دور حکومت میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے 50لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھامگر عملی طور پر یہ صرف وعدہ ہی ثابت ہوا اور کبھی عملی شکل اختیار نہ کر سکا حالانکہ وہ پونے چار سال تک برسر اقتدار رہے۔اسی تناظر میں سنجیدہ حلقوں نے رائے ظا ہر کی ہے کہ موصوف کے مقابلے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں موٹر وئے جیسا عظیم الشان منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچایا اور تقریباً پونے چار سو کلو میٹر پر محیط جنوبی ایشیاءکی سب سے پہلی موٹر وے تعمیر کی جسے خود بھارت اور دیگر ایشیائی ملکوں نے فن تعمیر کا ایک معجزہ قرار دیا۔علاوہ ازیں ملتان،لاہور اور پنڈی اسلام آباد میں میٹرو منصوبے کی تعمیر بھی یقینا ایک بہت بڑا تعمیراتی منصوبہ تھا جسے نوازشریف اور شہباز شریف نے محنت اور لگن کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچایا ۔ دوسری جانب سابق وزیر اعظم عمران خان اسی منصوبے کو اپنے دور حکومت میں جنگلا بس کے نام سے مطعون کرتے رہے مگر بعد میں کئی کنا زیادہ لاگت سے یہی جنگلا بس یعنی ’بی آر ٹی“بنائی۔اس ضمن میں ماہرین نے یاد دلایا ہے کہ چوں کہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے اس لئے ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ پنجاب حکومت عوامی فلاح کے ایسے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے