کالم

لاہور کا پہلا نمبر

rohail akbar

لاہور والوں نے بھی عجیب قسمت پائی ہے اس شہر سے جتنے وزیر اعظم بنے ہیں شائد ہی پاکستان کے کسی دوسرے شہر سے بنے ہوں جبکہ لاڑکانہ کا بھٹو بھی اسی شہر میں آیا اور پارٹی کی بنیاد رکھی تو وزیر اعظم بن سکا لیکن سب ہوس کے پجاری نکلے کسی نے بھی اسکی خوبصورتی کو دوبالا کرنے پر توجہ نہیں دی زندہ دلان لاہور کو استعمال کیا وعدوں کے لالی پاپ دیے اور اب صورتحال یہ ہے کہ باغوں ،بہاروں اور پھولوں کا شہر لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے اور روشنیوں کا شہر ہ کراچی دوسرے نمبر پرہے عدالت کے حکم پرلاہور میں سکول ہفتہ کے تین دن بند رہیں گے جبکہ پرائیوٹ اور سرکاری اداروں میں بھی چھٹیوں سمیت وقت کی قید شروع ہونے جارہی ہے ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور کی فضاوں میں آلودہ ذرات کی مقدار 345پرٹیکیولیٹ میٹرز ریکارڈ ہوئی جبکہ کراچی میں آلودہ ذرات کی مقدار235پرٹیکیولیٹ میٹرز ہے۔ آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں بھارتی شہر ممبئی 207پرٹیکیولیٹ میٹرز کے ساتھ تیسرے، کلکتہ چوتھے نمبر پر ہے ان بھارتی شہروں کا تو ہمارے ساتھ مقابلہ نہیں ہے وہاں کی آبادی اور غربت اتنی ہے کہ کوئی جگہ خالی نہیں انسان اور حیوان ایک برابر ہیں انکے مقابلے میں لاہور اور کراچی تو شاندار اور خوبصورت شہر ہوا کرتے تھے جبکہ لاہور کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا مگر اب ہمیں ایک طرف سے آلودگی خواہ کوئی بھی ہو فضائی ،سیاسی ،سماجی یا معاشی نے بری طرح جکڑ رکھا ہے تو دوسری طرف ڈینگی اور کرونا نے بھی اپنے پر پھیلانا شروع کردیے ہیں اگر فضائی آلودگی پر نظر ڈالیں تو درجہ بندی کے لحاظ سے ایئر کوالٹی انڈیکس 151سے 200 درجے تک آلودگی مضر صحت ہوتی ہے ، 300 درجے تک آلودگی انتہائی مضر صحت کہلاتی ہے جبکہ 301سے زائد درجہ خطرناک آلودگی کو ظاہر کرتا ہے جو لاہور میں اس وقت345 کی حد کو بھی عبور کررہی ہے اس کی وجہ سے بچے ،نوجوان اور بزرگ شدید متاثر ہورہے ہیں ویسے تو ہماری پوری قوم ہی مختلف آلودگیوں کا شکار ہے اگر غور کریں تو اس وقت ملک کی سیاست، معاشرت، معیشت اور ماحول بیک وقت آلودگی کا شکار ہیں سیاست گالم گلوچ کا شکارہوچکی ہے گذشتہ روز مولانا فضل الرحمن کی خواتین کے حوالہ سے تقریر باعث شرم تھی حکمران طبقہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہا ہے ایک دوسرے کو ہم برداشت کرنے کی برداشت سے گذر چکے ہیں گزشتہ دنوں وزرائے اعظم پاکستان اور آزاد کشمیر کے مابین بھی تلخ کلامی کی خبریں اخبارات کی زینت بنیں اتنے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے یہ لوگ قوم کو کیا سبق دے رہے ہیں؟ آپس کی لڑائیاں ایک دوسرے کو غدار ،چور ،ڈاکو ،یہودی ایجنٹ اور نہ جانے کیا کیا القابات دینے کے بوجود سبھی اقتدار پر براجمان ہیں یہ اتنے بڑے سنگین الزامات ہیں کہ ان پر آج تک کوئی تحقیق ہوئی اور نہ کی کسی نے کچھ کاروائی کی الٹاحکمران جماعتیں عوام کا استحصال کرنے میں مصروف ہیں ایسا لگتا ہے کہ قوم کو لڑاﺅ اور تقسیم کرو ان کا ایجنڈا ہے ایک وقت تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے کارکن ایک دوسرے سے ملنا تو درکنار دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے مگر اب دونوں ایسے بغل گیر ہیں کہ جیسے پیپلز پارٹی ن لیگ ہو اور ن لیگ بھٹو پارٹی ہو ان دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے کیس ختم کرنے کےلئے نیب قوانین میں بھی تبدیلی کرلی یہاں معمولی چور کو مار مار کر مار دیا جاتا ہے اور بڑے چوروں کو معافی مل جاتی ہے اور تو اور اپنے مقدمات کا اندراج کروانے کےلئے بھی لوگوں کو عدالتوں کا رخ کرنا پڑتا ہے پھر کہیں جاکر مقدمہ درج ہوتا ہے جس معاشرے میں لوگوں کو انصاف میسر نہ ہو اور طاقتور قانون کا مذاق اڑائیں وہاں سماجی آلودگی فضائی آلودگی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے جو ہمیں ذہنی معذور اور غلام بنا تی ہے پھر ہم اخلاقی طور پر اتنے گر جاتے ہیں کہ کرپشن ،لوٹ مار اور چور بازاری ہمیں بری نہیں لگتی یہی وجہ ہے کہ کرپشن میں پاکستان کا 180ممالک میں سے 140 واں نمبر ہے اگر یہی رفتار رہی تو ہم ایک نہ ایک دن کرپشن میں بھی پہلا نمبر حاصل کرہی لیں گے ہم جمہوری نظام میں سانسیں لے رہے ہیں جس طرح ووٹ گنے جاتے ہیں اسی طرح سیاستدانوں نے ہماری سانسیں گن رکھی ہے جس کو جتنی آکسیجن کی جورور ہوتی ہے یہ سب ہمارے لیڈروں کو معلوم ہوتا ہے اور پھر الیکشن کے دن سے لیکر وزیر اعظم کے انتخاب تک خریدو فروخت ہوتی ہے جو جتنا بڑا بیوپاری ہوتا ہے وہ اتنے ہی گھوڑے خرید لیتا ہے انکی منڈیا ں کبھی چھانگا مانگا کے جنگل میں سجائی جاتی ہے تو کبھی برف پوش پہاڑوں کی واسی ملکہ کوہسار مری میں لگائی جاتی ہے ویسے تو ابھی حال ہی میں جب حمزہ شہباز شریف کو وزیر اعلی بنوانا تھا تو اس وقت لاہور کے ہوٹل ہی اس کام کے لیے استعمال ہوئے تھے عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں آنے والے عوام کو ہی چکر دے جاتے ہیں ابھی ملک بھر میں ووٹر ڈے منایا جارہا ہے اور ووٹر کو احساس تک نہیں کہ یہی ووٹ نہ صرف انکی تقدیر بدل سکتا ہے بلکہ پاکستان کو بھی خوشحالی کے راستے پر لا سکتا ہے جس دن لوگوں کو احساس ہوگیا کہ ان کا ووٹ ان کے پیسے سے بھی بیش بہا قیمتی ہے اور یہ صرف اہل و ایماندار لوگوں کو دینا چاہیے تب پاکستان میں حقیقی تبدیلی آئے گی ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ ملک میں وسائل کی کمی نہیں مسئلہ ان کی منصفانہ تقسیم کا ہے ہمارے حکمرانوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسایا اور قوم کی گردن میں آئی ایم ایف اور امریکہ کی غلامی کا طوق ڈالایہ لوگ سالہا سال سے اقتدار پر قابض عوام کو اپنی کارکردگی نہیں بتاتے بلکہ جھوٹے نعروں اور وعدوں کے جال میں پھنساتے ہیں یہ لوگ اپنی نسلوں کا مستقبل دیکھتے ہیں انہیں عام آدمی اور اس کے بیٹے اور بیٹی کے مستقبل سے کوئی غرض نہیں ان سب نے مل کر نوجوانوں کو دھوکہ دیا مزدور، دیہاڑی دار اور کسان کو رلایا چھوٹے تاجر دکاندار کی معیشت تباہ کی مافیاز کی سرپرستی کی اور عوام کو مہنگائی بے روزگاری اور بدامنی کے تحائف دیے اب بھی وقت ہے کہ سنبھل جائیں ورنہ پھر ہمارے پاس پچھتانے کا بھی وقت نہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri