سیاست کو عبادت کہتے ہیں، مگر ہماری سیاست نے عبادت کو بھی شرمندہ کر دیا ہے۔کل ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے میرے دل کو ہلا کر رکھ دیا۔ خبر کچھ یوں تھی کہ پیپلز پارٹی کے بزرگ رہنما منظور وٹو ایک جنازے میں شریک ہوئے۔ مقام گرم تھا، دھوپ سخت، مگر چونکہ جنازہ کسی غریب کا تھا، اس لیے یہ سمجھا گیا کہ سیاست دان خود آئیں گے، کندھا دیں گے، دعا میں شریک ہوں گے۔مگر وہ آئے، لینڈ کروزر کے شیشے نیچے کیے، دعا پڑھی، اور اے سی میں بیٹھے بیٹھے واپس چلے گئے۔ نماز جنازہ گاڑی میں بیٹھ کر ادا کی، جیسے یہ عبادت نہیں، کوئی سیاسی تقریر ہو جسے موبائل کیمرے میں ریکارڈ کرانا ہو۔میں دیر تک سوچتا رہا کہ یہ کیا تھا؟یہ جنازہ تھا یا کسی بادشاہ کا "پرٹوکل فوٹو سیشن”؟یہ نماز تھی یا تکبر کا مظاہرہ؟یہ عوامی خدمت تھی یا عوامی تحقیر؟میرے ذہن میں سوالوں کی بوچھاڑ تھی۔ کیا یہی ہے وہ جمہوریت جس کیلئے ہم نے جلسے کیے، گرفتاریاں دیں، اور جلا وطنیاں سہیں؟ کیا سیاست اب صرف دکھاوے، شان و شوکت، اور AC والی گاڑیوں میں گھومنے کا نام رہ گئی ہے؟ کیا اب عوام کی عزت صرف اس وقت تک ہے جب تک وہ ووٹ دینے آتے ہیں؟ نمازجنازہ، میرے عزیزو! صرف دعا نہیں ہوتی۔ یہ محبت، یکجہتی، احساس اور تعلق کا اظہار ہوتا ہے۔آپ جنازے میں شریک ہو کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ مگر جب ایک سیاست دان،جو عوام کا نمائندہ کہلاتا ہے،جنازے کو بھی شاہی پروٹوکول میں تبدیل کر دے، تو سمجھ لیجیے کہ سماج میں احساس دفن ہو چکا ہے۔کاش اس وقت مولوی صاحب تھوڑا سا جرأت کا مظاہرہ کرتے اور کہتے:محترم اگر نماز پڑھنی ہے تو نیچے آئیے۔ گاڑی میں بیٹھ کر عبادت نہیں ہوتی۔یہ اللہ کے حضور حاضری ہے، عوام کے سامنے نمائش نہیں۔مگر ایسا نہ ہوا۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں مسجدیں بھی شخصیات دیکھ کر سجدے کا رخ بدل لیتی ہیں۔ کہیں کی چھت چندے کی امید میں جھکی ہوئی ہے، اور کہیں کے وضو خانے کسی لیڈر کی آمد پر صاف کیے جاتے ہیں۔یہ واقعہ محض ایک جنازے تک محدود نہیں رہے گا۔ اس نے ایک نئی روایت کو جنم دیا ہے۔ اب شاید ”رینج روور” والے بھی جنازے میں شریک ہوں گے، شاید مٹسوبشی والوں کے نمائندے بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ہم کیوں پیچھے رہیں؟شاید آنے والے دنوں میں ہونڈا سٹی کا نیا ماڈل ”نماز جنازہ موڈ”کے ساتھ آئے، جس میں سیٹ خود بخود قبلہ رخ ہو جائے، اور ڈیش بورڈ پر ”تکبیر”کا بٹن لگا ہو۔اہلِ جاپان، کوریا اور چائنہ سے میری گزارش ہے کہ اب صرف اسپیڈ، ایئر بیگز اور سن روف کافی نہیں۔ آپ کی گاڑیوں میں ”نماز جنازہ سپورٹڈ سیٹنگ”بھی ہونی چاہیے کیونکہ ہمارے سیاست دانوں کو اب زمین پر اترنے کی تکلیف نہیں دی جا سکتی۔ انہیں اللہ کے سامنے بھی حاضر ہونے کے لیے گاڑی کی گدی چاہیے۔کیا ہم واقعی اس سطح پر آ گئے ہیں کہ اب عبادت بھی گاڑی کی چار دیواری میں ہو گی؟تو پھر جلد یہ اشتہارات بھی تیار رکھیں:Introducing Toyota Janaza Edition For elite prayers on the go! ۔یا”Range Rover Spiritual Luxury, now in motion!”یہ بات شاید طنز لگے، مگر حقیقت کی بنیاد پر ہے۔جو سیاست دان عوام کے جنازے میں کھڑا ہونے کی ہمت نہ رکھے، وہ عوام کیساتھ زندہ رہنے کی اہلیت کیسے رکھے گا؟یہ وہی لوگ ہیں جو انتخابی مہم کے دوران گلیوں میں گھومتے ہیں، دوپٹہ اوڑھ کر بوڑھی عورتوں کو دعائیں دیتے ہیں، اور چھوٹے بچوں کو پیار کر کے کیمرہ دیکھتے ہیں۔ مگر جیسے ہی ووٹ ملتے ہیں، وہی گلی، وہی محلہ، وہی عوام، ان کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں۔ وہ اب اے سی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں، جلسے میں بھی خصوصی کرسی، جنازے میں بھی خصوصی دعا۔عوام!جاگ جا!،جنازے میں اگر آپ کیساتھ کھڑا ہونے والا کوئی نہیں، تو اقتدار میں آپ کیساتھ کھڑے ہونے کا دعویدار بھی جھوٹا ہے۔اگلی بار جب کوئی سیاست دان ووٹ مانگنے آئے، تو اس سے صرف منشور نہ پوچھو پوچھو کہ اگر میں مر جاؤں، تو کیا تم میرے جنازے میں نیچے اتر کر کھڑے ہو گے؟اگر جواب ہاں ہو، تو سوچنا، اور اگر جواب گول مول ہو، تو سمجھنا کہ وہ صرف تمہارے ووٹ کا بھوکا ہے، تمہارے دکھ کا نہیں۔میں اس تحریر کو ختم کرنے سے پہلے اس امام صاحب کو بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ”نماز جنازہ میں شرکت شرف ہے، مگر بے حسی کے آگے جھک جانا ذلت ہے”۔منظور وٹو صاحب کو بھی، اور ان جیسے تمام صاحبانِ اقتدار کو بھی، یہ یاد رکھنا ہو گا کہ عوام سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں، لیکن تحقیر نہیں۔جنازے میں اگر کوئی سیاست دان زمین پر کھڑا نہیں ہو سکتا، تو وہ اس قوم کے دکھ سکھ میں شریک کیسے ہو گا؟یہ محض ایک غریب کا جنازہ نہیں تھا ۔یہ ہماری غیرت، حمیت، اور شعور کا جنازہ بھی تھا۔فرق صرف یہ ہے کہ غریب کو قبر ملی،اور ہمارے شعور کو قبرستان بھی نہیں۔مورخ شاید ایک دن یہ لکھے گا:یہ وہ جنازہ تھا، جس میں لینڈ کروزر نے بھی شرکت کی۔