خبرہی ایسی تھی جس نے پوری دنیا میں شورمچادیا کچھ لوگوںکو یقین ہی نہیں آرہاتھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے عیسائی اور یہودیوںپر دہشت طاری تھی البتہ مسلمان انتہائی پرجوش دکھائی دے رہے تھے۔ قہوے خانے میں بیٹھے ایک بوڑھے فلسطینی نے نوجوان سماجی کارکن کو بڑے رقت آمیزلہجے میں کہا بیٹایہ حالات کا جبر ہے یا صیہونی مظالم کہ ایک خاتون نے ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کی بجائے پستول پکڑ لیا جولوگ موت کی آنکھوںمیں آنکھیں ڈال کر جان ہتھیلی پرلئے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہوں اس کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی تم دیکھ لینا لیلیٰ خالد ضرور اپنے مقصدمیں کامیاب ہوگی لیکن نوجوان نے کچھ کہنے کےلئے اب کھولے ہی تھے کہ بوڑھے فلسطینی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا جب کسی سے جینے کا حق بھی چھین لیا جائے تو بیٹا ایسے ہی ہوتا ہے غورکرو بلی جیسے جانورکو کمرے میں بند کرکے واپسی کے راستے مسدودکردئےے جائیں تو وہ خونخوارہوجاتی ہے ہم تو پھرجیتے جاگتے انسان ہیں یہودی ہمارے گھروں پرقابض ہوجائیں آئے روز فلسطینیوںپرحملے،بم دھماکے،ظلم و ستم کرتے پھریں اور ہماری کو داد فریادبھی نہ سنے تو جبرکی کھوکھ سے حریت پسندہی جنم لیتے ہیں۔یادرکھو! ظالموںکا مقابلہ نہ کرنا بزدلی بھی ہے اور اعلیٰ درجے کی منافقت بھی۔ نوجوان کا چہرہ تمتا اٹھااس نے اثبات میں سرہلادیا وہ بولا اپنے وطن کی آزادی کےلئے میں بھی فلسطین کازکےلئے دن رات ایک کردوںگا۔ بوڑھے فلسطینی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اس نے کہا شاید تم نہیں جانتے لیلیٰ خالد دنیا کی پہلی خاتون ہائی جیکر ہیں جس نے جہاز اغوا کرنے کےلئے 6 بار پلاسٹک سرجری کروائی دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک کام ہائی جیکنگ ہے جس میں کسی طیارے کو اغوا کر کے ذریعے اپنے مطالبات منوانا ہے۔ہائی جیکنگ جیسے پر خطر جرم میں اول تو کسی خاتون کا ملوث ہونا ہی حیرت کی بات ہے لیکن کسی نوجوان لڑکی کا جہاز ہائی جیک کرنا، پھر پلاسٹک سرجری سے اپنی شکل تبدیل کرانا، اور ایک بار پھر ہائی جیکنگ کرنا، یہ تو یقیناً ایسی حیران کن کہانی ہے جو فلمی لگتی ہے۔ لیکن دنیا میں یہ واحد مثال فلسطینی خاتون لیلیٰ خالد کی ہے جس نے ایک نہیں دو بار جہاز ہائی جیک کیاتھا ۔ لیلیٰ خالد انتہائی حساس طبیعت کی حامل تھی بچپن میں ہی اس نے د یکھا غزہ پریہودیوں کے حملوں میں آئے روز اپنے ہم وطنوں کے کٹے پھٹے لاشے دیکھ دیکھ کر وہ بہت بے چین ہوجاتی ایک روز تو حدہوگئی نہ جانے کہاں سے یہودی طیارے نمودارہوئے انہوںنے آناً فاناً بمباری شروع کردی جتنی دیر میں فلسطینی جوابی کارروائی کرتے اس کا پورا محلے ملبے کا ڈھیربن چکا تھا دھواں اگلتے مکان آگ اور خون میں ڈوب گئے جن سہیلیوںکے ساتھ وہ ڈھیروں باتیں کرتی رہتی گڈے گڑیوں کا کھیل کھیلتی تھی ان کی صورتیں نہ دیکھی جارہی تھیں اسے وحشت ہونے لگی اس نے فلسطین کی آزادی تحریک میں شمولیت اختیارکرنے کا فیصلہ کرلیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک متحرک کارکن بن کر سامنے آئی اور مظلوم فلسطین کی آزادی کی علامت بن گئی ۔ لیلیٰ خالد 9اپریل 1944ءکو پیدا ہوئی اس کا کنبہ فلسطینیوں کے انخلاءکے بعد 13 اپریل 1948 کو لبنان چلا گیا اس نے 15 سال کی عمر میں ، اپنے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ، وہ پین عرب نیشنلسٹ موومنٹ میں شامل ہوگئی ، جس کی ابتداء1940 کی دہائی کے آخر میں جارج حباش نے کی تھی جو اس وقت امریکی یونیورسٹی بیروت کے میڈیکل کی طالبہ تھی۔
(……..جاری ہے)
