پاکستان ایک غریب ملک ہے اس کی معاشی حالت بہتر نہیں کوششیں جاری ہیں کہ اس کیفیت سے اسے نکالا جائے یہ جملے سنتے سنتے بچے بوڑھے ہو گئے ہیں اور بوڑھے اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں لیکن یہ جملے ہر دور میں سنائی دیتے ہیں اللہ نے پاکستان کو بے پناہ ذرائع سے نوازا ہے بلوچستان کا صوبہ معدنیات سے بھرا پڑا ہے جس جگہ سونے کی کانیں موجود ہوں بھلا وہ ملک کیسے غربت کے شکنجے میں رہ سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس ملک کے حکمران اور اشرافیہ نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا بڑی امیر قوموں کے جھولی چک غلام بنے رہے اور عوام کو غریب سے غریب تر بنا دیا آج یہ حالت ہے کہ عوام دو وقت کی روٹی کھانے کے قابل بھی نہیں رہی قرضہ لینے والوں نے ملک کے نام پر قرضہ لیا اور اسکا بڑا حصہ طرح طرح کے حربوں کے ذریعے خود ہی کھا گئے اشرافیہ دن بدن پھلتی پھولتی رہی اور غریب عوام انہیں بے بسی اور حیرت سے دیکھتے رہے نہ تو وہ طبقہ لوٹ مار کے فلسفے سے تبدیل ہوا اور نہ ہی عوام صبر شکر کی کیفیت سے نکل سکے آج یہ وقت ہے کہ قرض کی قلیل رقم کے لیے ادھاربھی دینے والوں کے تلوے چاٹنا پڑ رہے ہیں آئی ایم ایف ناک سے لکیریں نکلوا کر ادھار کی درخواست منظور کر رہا ہے اشرافیہ نے ملک کے وسائل کو کار آمد نہیں بنایا اس کے برعکس اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے ذریعے ملک کو نچوڑنے کے لیے کوئی حربہ ناکام نہیں ہونے دیا کسی بھی شعبے پر نظر دوڑائیں آپ کو سوائے افسوس کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا بتدریج کرپشن ہر شعبے میں پھیل گئی ہے وہ ادارے جو ایسے حالات کو سدھارنے اور کرپشن کے خاتمے کے لئے بنائے گئے وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے بلکہ نہاتے رہے یہ سلسلہ کہیں بھی رکا نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا انہیں کون پوچھے ملک کو معرض وجود میں آئے پچھتر سال بیت چکے لیکن نہ تو اسکی معیشت بہتر ہو سکی اور نہ ہی معاشرت دونوں ہی کا برا حال ہے یہ اسلامی ملک ہے اور کام غیر اسلامی ہیں کوئی گل سیدھی نہیں درسگاہوں کا ماحول دیکھ لیں گھروں کے حالات کسی سے چھپے ہوئے نہیں کاروبار جھوٹ دو نمبری کی نذر ہو چکا کاروباری حضرات اخلاقی نہیں غیر اخلاقی طریقوں سے دولت سمیٹنے کے مواقع بناتے رہتے ہیں جیسے کوئی تہوار ہو ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں دونوں ہاتھوں سے بلکہ دونوں پاوں سے بھی دولت سمیٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں نہ اللہ یاد رہتا ہے اور نہ ہی مذہبی اور اخلاقی اصول روایات بس دولت سمیٹنا ہی مطمع نظر ہوتا ہے کھاتے وہ ہی دو روٹی اور ایک وقت میں ایک ہی لباس زیب تن کیا ہوتا ہے جس عالیشان مکان میں رہتے ہیں اسے بھی صبح چھوڑ کر کاروبار زندگی میں لوٹ جاتے ہیں مہنگی گاڑی جس میں سفر کرتے ہیں اسے بھی منزل پرپہنچ کر سڑک کنارے کھڑی کر دیتے ہیں کچھ بھی ساتھ نہیں رہتا سب کچھ چھوڑنے کی حقیقت سے گزر رہے ہوتے ہیں لیکن سبق نہیں سیکھتے اصل میں دولت جتنی بھی کما لی جائے وہ آپ دوسروں کے لیے اکٹھی کر تے ہیں بینکوں میں رکھ کر انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ میں دولت مند ہوں سانس کی ڈور کٹ جائے تو خالی ہاتھ اگلے جہاں کا سفر دولت اسی دنیا میں کما کر یہیں چھوڑ گئے اعمال ساتھ گئے انہی کا محاسبہ ہے انہیں یہ سادہ حقیقت سمجھ نہیں آتی نہ تو اپنے آپ سے یہ لوگ مخلص ہوتے ہیں اور نہ ہی ملک سے حکومتیں بھی شان و شوکت سے حکمرانی کا دور گزار کر رخصت ہو جاتی ہیں دولت خرچ کر کے دولت کے انبار لگاتے ہیں ملک کو اس طرح چوستے ہیں جس طرح جوس بیچنے والے مشین سے پھلوں کا جوس نکالتے ہیں سبھی ملک کے وفادار خیر خواہ اور اپنی صلاحیتوں کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے صرف کرنے والے بنتے ہیں باتیں ناصحانہ کرتوت وحشیانہ ۔ مختلف حربوں سے غریب قوم ہر دور میں لٹتی رہی اور یہ سلسلہ کہیں بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا پرانے سیاسی کھلاڑی روپ بدل بدل کر عوام کے خیر خواہ بن کر آ رہے ہیں ملک کی اشرافیہ دن بدن مضبوط ہوتی جا رہی ہے ان کے مفادات غیر ممالک سے منسلک ہیں دولت لوٹ کر باہر رکھتے ہیں بچے تعلیم باہر کے ممالک سے حاصل کرتے ہیں فیملی گرمی اور سردی کے حساب سے غیر ممالک کا سفر کرتی ہے رہائش کےلئے شاندار رہائش گاہیں بھی وہیں موجود ہیں لگژری شاپنگ اور لائف سٹائل کےلئے نہ ختم ہونے والی دولت بھی انہی ممالک میں موجود ہوتی ہے جرائم کرنے کے باوجود وہ باعزت ہیں قانون کے ہاتھ انہیں پکڑنے میں ہمیشہ مفلوج رہتے ہیں صرف غریب کردہ یا نہ کردہ گناہوں کی سزہ بھگت رہا ہے آپ جیلوں میں جا کر سٹڈی کر لیں وہاں اکثریت غریبوں کی ہے امرا اشرافیہ شان شوکت سے اپنے دولت کدوں میں ہوتی ہے جیلیں ان کے آنے کو ترستی ہیں وہ سب کچھ کرنے کے باوجود باعزت ہیں نہ جانے ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی کب ہوگی ایسا معاشرہ کب معرض وجود میں آئے گا جہاں جرائم نہ ہونے کے برابر ہوں گے جہاں جان مال اور عزت ہر شخص کی محفوظ ہوگی کسی کو دو وقت کی روٹی کمانے کے لالے نہیں پڑے ہوں گے بلکہ ہر فرد خوشحال ہوگا زندگی کی تمام ضروریات بغیر پریشانیوں کے سب کی دسترس میں ہوں گی پچھتر سالوں میں قوم قانون شکن دو نمبری لوٹ مار دھوکہ فریب جھوٹ غرض ہر طرح کے عیوب میں پروان چڑھی ہے امیر زیادہ امیر بن گیا ہے اور غریب مزید غربت کی زنجیروں میں جکڑا گیا اسے اس مخصوص ماحول سے نجات کا راستہ نہیں مل رہا کیونکہ طاقتور امیر طبقہ دن بدن خواب خیال سے بھی زیادہ امیر ہو تاچلا جا رہا ہے اگر کاروبار کے زریعے یا انڈسٹری کے مالک ہونے کی وجہ سے دولت کما رہا ہے تو وہ ٹیکس چور ہے ملک کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اگر موجودہ صورت حال پر بات کی جائے تو ایک خبر کے مطابق حکومت 58 کھرب کا ٹیکس وصول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ریٹیل سیکٹر میں 888ارب ٹرانسپورٹ میں 562ارب آئی پیز میں 498ارب اور برآمدات میں 342ارب کا ٹیکس گیپ ہے پٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ ٹیکس چوری اور دیگر عوامل کی وجہ سے 996ارب کے ٹیکس کا فرق ہے جن مقامات پر رابطہ سڑکیں بنانے کی ضرورت ہے وہاں توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان علاقوں کو مین سٹریم میں لایا جا سکے وہاں ترقی ہو کاروبار پھیلے اور ٹیکس بھی وصول ہو غریب عوام پر ٹیکس لگانے سے ملک کے اخراجات پورے نہیں ہوتے ٹیکس چوروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کی ضرورت ہے ایک سال میں گیس کی مد میں تیسرا اضافہ ہونے کو ہے اسی طرح جب ریٹیلر پر ٹیکس ہوگا تو اس نے بھی لوگوں سے ہی وصول کرنا ہے چھری اوپر ہو یا نیچے کٹنا عوام نے ہی ہے اشرافیہ کو اللہ ہدایت دے اگر یہ لوگ جنہوں نے ملک کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر غیر ممالک میں محفوظ کیا ہے وہ اگر اس لوٹی ہوئی دولت کو واپس لے آئیں تو ملک کی معاشی ابتری بہتر ہونے کی طرف گامزن ہو سکتی ہے ایسا دیوانے کا خواب ہے جسے حقیقت سے کوئی سروکار نہیں آنے والا وقت عوام کے لیے مزید تکلیف دہ ہوگا ہم مانگت قوم بن چکے ہیں پہلے لیا ہوا قرض اترنے کا نام نہیں لے رہا اس پر ستم یہ ہے کہ مزید قرض کی ضرورت ہے قوم کی اکثریت غریب ہونے کی وجہ سے سادہ ہے اس کے برعکس اشرافیہ مزے میں ہے ان کی بلا سے ملک کی حالت بہتر ہوتی ہے یا نہیں ملکی حالات زیادہ خراب ہوئے تو اکثریت باہر چلی جائے گی جہاں ان کی دولت پڑی ہے وہیں پکا قیام ہوگا ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا عوام جئیں یا مریں وہ ان غریبوں کا تماشہ دیکھنے والے ہیں عزت دار لوگ ایسے ماحول میں رہنا پسند نہیں کرتے جہاں ان کی دولت محفوظ نہ ہو حکومت وقت کو سرکاری اخراجات کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے سرکاری دفاتر میں جو بڑی بڑی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی پھرتی ہیں ان کے اخراجات کو کم کرنا ہوگا جو بجٹ ہر وزارت کو سالانہ اخراجات کےلئے مختص کیا جاتا ہے اسے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے وزارت کے سربراہ کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ غریب قوم کے پیسے کو ضائع ہونے سے بچائے اخراجات کم سے کم کریں ٹیکس وصولی میں ڈنڈی مارنے والوں کا کڑا احتساب ہو ایسے اصحاب موجود ہیں جو ٹیکس چوری میں ملوث ہیں ان سے پورے ٹیکس کی وصولی ہو سمگلنگ کسی بھی شکل میں ہو اسے قانون کی گرفت میں لایا جائے صواب دیدی اختیارات کا استعمال نہیں ہونا چاہیے حکومتی کارندے صحیح معنوں میں سادگی اپنائیں ایمانداری اور زمہ داری سے اپنے فرائض انجام دیں عام پبلک بھی ان کی پیروی میں سادہ طرز حیات کے ساتھ قانون پر عمل پیرا ہوگی اس وقت ملک تشویشناک حد تک معاشی کمزوری میں مبتلا ہے بیرونی قرضوں کی ادائیگی ایک مشکل مرحلہ بن چکا ہے ابھی ان قرضوں کی واپسی نہیں ہو سکی ایسے میں مزید قرضوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا ہماری نسل در نسل مقروض ہے پاکستانی قوم کب خوشحال ہوگی کوئی پتہ نہیں نہ قرض اتریں گے نہ خوشحالی آئے گی اسی طرح فکر فاقوں میں زندگی گزر جائے گی ان لوٹ مار کرنے والوں نے قوم کو غربت کے اندھیریوں میں دھکیلا ہوا ہے اللہ کرے کوئی اللہ کا بندہ جو ایماندار ہو مخلص ہو سادگی پسندہو ملک کا حکمران بنے اسکے ساتھی بھی ویسے ہی ہوں تو ایک عرصے بعد ملک خوشحال ہو سکتا ہے اشرافیہ اور حکمرانوں کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے اللہ نے جو معدنی دولت ملک کو عطا کی ہوئی ہے ان کو بروئے کار لایا جایے ان صوبوں کے لوگوں کا خصوصی خیال رکھا جانا چاہیے وہاں ترقی اور خوشحالی لائے جانے کی سخت ضرورت ہے پھر ملک بھی ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن ہوگا یہاں اللہ نے سب کچھ عطا فرمایا ہے صرف اشرافیہ اور حکمرانوں کو اپنے اطوار اور سوچ بدلنے کی ضرورت ہے مانگت قوم کا جو لیبل ہم پر لگتا ہے اس سے نجات کی ضرورت ہے کشکول توڑنا پڑیگا ، ہمت مرداں مدد خدا ۔ نیت اور جزبہ نیک ہو تو اللہ کامیابیاں عطا فرماتا ہے ۔