کالم

متاع درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے

پاکستان اپنے قیام کے ایک ڈیڑھ سال کے اندر اندر خاص لوگوں کا ملک بن گیا۔جہاں عام اور گہنگار لوگوں کے لیے سوائے اطاعت اور غلامی کے ،دوسرے کسی راستے کی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی۔خاص لوگوں نے ریاست کو اسلام کے قلعے یعنی ایک نظریاتی ریاست کی خلعت فاخرہ پہنا کر پرستش کے لیے سجا دیا ، انہی خاص لوگوں نے اپنے لیے مذہب کا جبہ و دستار پسند کیا، اور بن سنور کر چلنے پھرنے لگے۔انہی "چلتے پھرتے” لوگوں نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے دستور بنانے کے عوض ایک قرارداد مقاصد منظور کروا کر عامتہ الناس کو ہمیشہ کے لیے طے شدہ مقاصد کا اسیر شہری بنا دیا ۔یوں پھر ایک نوزائیدہ ریاست کے غیر مختتم نخروں کا آغاز ہوا،جو آج تک جاری و ساری ہیں۔احمد سلیم ان پاکستانیوں سے تعلق رکھتے ہیں ،جو بزعم خود خاص لوگوں کے مقابل مکمل طور پر عام آدمی ہونے اور بننے پر فخر کیا کرتے تھے۔انہوں نے ملک کے بدترین مارشل لاں کا ایک عام شہری کے طور پر تجربہ اور مشاہدہ کیا ، مشکلات برداشت کیں۔یاس و حرماں کے ، دکھ درد کے معنی سیکھے۔فیض کی قربت اور تربیت نے احمد سلیم کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ ایوب خان کے محترمہ فاطمہ جناح کے مقابل دھاندلی والے الیکشنز میں احمد سلیم نے محترمہ فاطمہ جناح کے ایک عام ورکر کے طور پر حصہ لیا ،اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔اسی حوالے سے لکھتے ہیں کہ؛ "ایوب خان نے انتخابی مہم کے آخری دنوں میں سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور ان پر تشدد کے سلسلے دراز کر دیئے تھے۔مجھے بھی دو دن حوالات میں کاٹنے پڑے،جہاں ” فاطمہ جناح زندہ باد”کہنے پر دس جوتے لگائے جاتے تھے ۔دو روز بعد جب میں رہا ہوا تو ایوب خان صدر منتخب ہو چکے تھے۔مادر ملت کو دھاندلی سے ہرایا جا چکا تھا اور کراچی کے
عوام سے ایوب خان کو ووٹ نہ دینے کا انتقام لینے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔”(احمد سلیم ، میری دھرتی، میرے لوگ ،ص 109) جنرل ایوب خان کے دس جوتوں نے خوب ترقی کی ، جنرل یحیی خان نے دس جوتوں کے عوض ہمارے بنگالی بھائیوں کو پرانی بندوقوں کی گولیوں سے چھلنی کئے رکھا، اور یوں مغربی پاکستانیوں کو بنگالیوں والی جمہوریت پسندی اور آزاد روی کے فیشن سے بچا لیا، اس کے ساتھ ساتھ بڑی حکمت عملی سے مغربی پاکستان کے معصوم و منزا ملاں کو بھی امریکہ بے زار مولانا بھاشانی جیسے "ریڈ ملا” کے اثر و نفوذ سے محفوظ و مامون کر لیا۔بعد میں ضیا الحق نے دس جوتوں کو دس ، بیس، تیس کوڑوں کی سزا میں بدل دیا تھا ۔گویا عامتہ الناس پر تشدد جاری رہا۔ستم ظریف کہتا ہے کہ اب حالات نسبتا بہتر ہیں، دس جوتے ہوں، بندوق کی گولیاں ہوں یا ٹکٹکی پر باندھ کر ننگی پیٹھ پر برسنے والے کوڑے،سب میں توہین و تذلیل کا پہلو بھی نکلتا تھا ،اب چپکے سے اٹھا اور چھپا لیا جاتا ہے اور اس کے بعد ؛ گل کرو شمعیں بجھا دو مئے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں۔۔۔۔۔گویا قصور تو پھر ہمارے اپنے شاعر کا ہی نکلا نا، جو ایسی تنہائی کی تصویر بنا اور سجھا کر چلا گیا۔ احمد سلیم جنرل یحیی خان کے دور میں بھی جمہوریت اور مشرقی پاکستانیوں پر مظالم کے خلاف آواز اٹھانے پر پابند سلاسل رہے۔ پاکستان میں بائیں بازو کی پر مشقت و اذیت ناک سیاست کے سرگرم مشاہد ہونے کے ناطے ان کے تجربات و مشاہدات نادر اور منفرد تھے ۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا ہمیشہ دشوار رہا کہ احمد سلیم صاحب کی باتیں سننا زیادہ دلچسپ و دل پسند بات ہے کہ انہیں پڑھنا۔نہایت متعین معنی سے لبریز علمی گفتگو حد درجہ سادہ لہجے میں کرنا ان پر منتہی تھا۔دوسرے کی بات توجہ سے سننا اور فی الفور اس کے مافی الضمیر کو سمجھ جانا ان کی انفرادیت تھی۔علمی مدد اور تعاون ان کے لیے عبادت اور آثار علم کی جمع بندی ریاضت کا درجہ رکھتے تھے۔ سخت جدوجہد کے سنگلاخ پہاڑوں کو سر کرنے والے عملی اور انقلابی لوگ تھوڑے سے زود رنج، بلند آہنگ اور لاتعلق سے ہو جایا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس احمد سلیم نرم گفتار ، سبک رفتار اور سنجیدگی کے ساتھ خوش مزاج بھی تھے۔ ایک بار اسی کی دھائی میں پاکستانی معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی کے آغاز اور فروغ کے طور طریقوں پر بات ہو رہی تھی۔یعنی یہ کہ ایک پرامن ، متوازن اور تعلیم و تدریس و تفریح اور احسان پر عامل معاشرے کو کس طرح سے فرقوں میں تقسیم اور باہم متحارب کیا گیا۔یوں دنیا میں پہلی بار کسی مسلمان ملک میں احترام رمضان ، توہین مذہب ،توہین رسالت اور توہین قرآن جیسے معاملات و مسائل نے جنم لے کر نہایت تیز رفتاری سے ترقی کی ۔ 1981 میں ملک میں احترام رمضان کا آرڈیننس کا اجرا ہوا ۔جس کی نو دفعات میں حد درجہ مزاحیہ انداز میں عوامی مقامات پر کھانے پینے کو جرم قرار دے دیا گیا۔جس کی سزا تین ماہ قید یا پانچ سو روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی تھیں۔ اس قانون کی ایک دفعہ کے مطابق کسی بھی ہوٹل یا کسی کنٹین یا کسی کھانے پینے کی جگہ،کسی سڑک کنارے یا کسی بھی پل پر ، یہاں تک کے کسی گھر یا کسی خیمہ تک کو "عوامی مقامات”قرار دے کر ان مقامات پر کھانا پینا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اسی تناظر میں احمد سلیم صاحب نے انتہا درجے کی سادگی اور گہرے درد کے ساتھ ایک ذاتی واقعہ سنا کر اداس کر دیا۔کہنے لگے میں دوپہر کے بعد کام سے فارغ ہو کر باہر نکلا ، گرمی کا موسم اور سخت بھوک ستا رہی تھی۔اتنے پیسے نہیں تھے کہ کھانا کھا سکتا ، سڑک کنارے ایک ریہڑی والا کیلے بیچ رہا تھا ، اس کے پاس جا کر چند کیلے خریدے اور وہیں ایک طرف ہو کر کھانے شروع کر دیئے۔ایسا کرتے ہوئے یہ بات میرے دھیان میں نہیں تھی کہ رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور پاکستان میں احترام رمضان کے نام پر دکھاوے کے متعدد اقدامات کے ڈرامے جاری و ساری ہیں۔شدید بھوک میں کیلے کھانے سے توجہ اس وقت ہٹی جب ایک پولیس والا سر پر آ پہنچا اور چیخا کہ یہ کیا کر رہے ہو۔مجھے اس سوال کا محل بالکل سمجھ نہیں آیا ، صرف اتنا کہا کہ کیلا کھا رہا ہوں ۔وہ پھر چیخا کہ تم نے توہین رمضان کی ہے ۔مجھے پکڑ کر قریب بنے ایک پولیس کے ناکے پر لے گیا۔ (جاری ہے )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے