کالم

مزدوروں کے عالمی دن کا سوال

میں شکاگو کے محنت کشوں کی لازوال قربانیوں کے بعد دنیا بھر میں محنت کشوں کو انسان سمجھنے ان کے حقوق تسلیم کرنے ان کے کام کے اوقات کار ماننے اور ان کی اجتماعی سودے کاری تسلیم کرنے کا آغاز ہوا،مزدوروں کے1886 منظم ہونے کےحق کو تسلیم کیا گیا، مزدوروں کی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے طور پر سہ فریقی بنیادوں پر عالمی ادارہ محنت قائم کیا گیا، جس نے دنیا بھر کے مزدوروں کے لئے اوقات کار ، تنخواہ، سماجی تحفظ ، صحت و سلامتی ، خواتین مزدوروں کے حقوق، بچوں اور جبری مشقت پر پابندی اور اس کا خاتمہ،اوور ٹائم ، خواتین کے کام کےمعیار ،پیشہ ورانہ بیماریوں، کام کی جگہ پر کسی قسم کا دھمکانا، ٹریڈ یونین اور اجتماعی سودے کاری سمیت محنت کے معیارات قائم کئے،مزدوروں کےلئے قانون سازی، ان کے حقوق کے تحفظ کےلئے عدالتی نظام، حادثات سے بچا اور حادثات کا شکار مزدوروں کے علاج و معالجہ سمیت نہ صرف مزدوری اور صنف کے امتیاز کے بغیر حقوق اور جواب دہی کا نظام قائم کیا بلکہ اس میں بہتری کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے، عالمی ادارہ محنت ILO نہ صرف خود سہ فریقی نمائندگی کی بنیاد پر کام کرتا ہے بلکہ رکن ممالک کو بھی پابند کرتا ہے،کہ ملک کے اندر مزدوروں کے حقوق کی ادائیگی، بہتری، تحفظ اور احتساب کا نظام سہ فریقی بنیادوں پر قائم کیا جائے۔بین الاقوامی اور ملکی سطح پر قوانین اور ادارے ہونے کے باوجود ہر یکم مئی کچھ نئی مشکلات اور مزدوروں کی اپنے حقوق سے محرومی کی نئی جہتیں سامنے لاتا ہے، اگرچہ ملک کے طول و عرض میں مزدور اپنا عالمی دن پورے جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیںاور جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کرتے ہوئے جدوجہد جاری رکھنے کا اعادہ کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود مزدوروں کے حالات پہلے سے بھی خراب ہی ہوتے جارہے ہیں، حکومت، سرمایہ دار، عالمی سرمایہ داری اور سامراجی حکومتوں کے علاہ کئی نئےعالمی ساہوکار پیدا ہوگئے ہیں، جنھوں نے مزدوروں کے حقوق کی پامالی اور غاصبی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے، ان میں سب سے زیادہ خطرناک مزدوروں کی صفوں میں بیٹھے وہ سانپ ہیں جو ریاست ، حکومتی عہدیداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیاسی جماعتوں کی طاقت کو اپنے گروہی اور ذاتی مفاد میں استعمال کرتے ہیں، اور مزدوروں کی اجتماعی طاقت کو منتشر رکھتے ہیں،انھوں نے مزدوروں کو مستقل، کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز میں تقسیم کردیا ہے حالانکہ مزدور صرف مزدور ہے، اس میں ملازمت کی نوعیت ، محنت کی قسم حتی کہ صنف، مذہب ،قوم، زبان، خطہ، رنگ اور نسل کی تفریق بھی نہیں، مزدور اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا استحصال کرنے والے ہر امتیاز کے باوجود ایک ہیں،جبکہ مزدوروں کو تفریق کرنے کے لئے ان میں یہ خرافات پیدا کی گئی ہیں۔پاکستان میں مزدوروں کی حالت زار کا یہ عالم ہے کہ لاکھوں محنت کشوں کو آج بھی صحت کی بنیادی سہولتوں سمیت سوشل سکیورٹی تک دستیاب نہیں، دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی لیبر قوانین موجود ہیں تاہم ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں مزدوروں کی بڑی تعداد استحصال،جبری مشقت اور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے،غیر ہنر مند مزدوروں کی کم از کم مقرر کی گئی اجرت 32 ہزار روپے تک نہیں دی جاتی،جبکہ ہنر مند افراد کے لیے اس سے زیادہ تنخواہ مقرر کی گئی ہے لیکن ان کو غیر ہنرمند مزدوروں کےلئے مقرر کردہ اجرت کے برابر تنخواہ دی جا رہی ہے، بدقسمتی سے ملک میں امن و امان کی صورتحال کے باعث یورپین سرمایہ کاروں نے پاکستان میں سرمایہ کاری پر توجہ کم کردی ہے،اس کڑے وقت میں دوست ملک چین نے تعاون کا ہاتھ آگے بڑھایا دہشت گردی کے چند واقعات نے بھی ان کا حوصلہ نہیں توڑا، حکومت پاکستان چینی تعمیراتی کمپنیوں کی سیکیورٹی پر بھرپور دیتی ہے لیکن ان کمپنیوں میں مزدور یونینز کے حالات بہت کمزور ہیں،تاہم ورلڈ بنک فنڈڈ پروجیکٹس میں بنک نے تمام فریقین پر مشتمل(GRC) تحفظات حل کمیٹی بنائی ہے، جس میں مزدوروں اور متاثرین سے متعلقہ مسائل تمام فریقین مل جل کر حل کرتے ہیں، ان مسائل کے فیصلے ہونے میں طویل عرصہ لگ جاتا ہے،جس سے مزدور دل برداشتہ ہو جاتا ہے، چینی سرمایہ کار بعض اوقات مزدوروں کے اہم مسائل پر توجہ نہیں دیتے، ملکی لیبر لاز پر عمل نہیں کرتے، واپڈا اتھارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی لیبر لاز پر عمل درآمد کروائے لیکن واپڈا کے پاس اس جانب توجہ دینے کا وقت ہی نہیں ہوتا، تربیلا پانچویں توسیعی منصوبہ ٹی فائیو کی چینی تعمیراتی کمپنی پی سی سی سی ایل مقامی مزدوروں کے استحصال کو اپنا قانونی حق سمجھتی ہے یہاں مزدوروں سے مقرر کردہ اوقات 8 کی بجائے 12 سے 15 گھنٹے کام لیا جاتا ہے اس کے علاوہ ہفتہ وار چھٹیوں کا بھی نظام نہیں اور مزدوروں کو اتوار کے روز بھی کام پر مجبور کیا جاتا ہے،تربیلا ٹی فائیو پروجیکٹ میں مزدوروں کو صحت کی بنیادی سہولتوں،حادثات کی صورت میں اچھے علاج معالجے، معیاری کھانا اور رہائش تک میسر نہیں، کام کے دوران سیفٹی آلات اور سیفٹی شوز سمیت مکمل ڈریس کٹ تک نہیں دی جاتی اپنے حقوق مانگنے والے مزدوروں کو ٹرمینیشن لیٹرز پکڑا دئیے جاتے ہیں،ان مسائل پر واپڈا حکام بات تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ یہاں کتنے ہی حادثات ہو چکے ہیں،اور روزانہ کی بنیادوں پرہورہے ہیں لیکن ابھی تک کسی سیفٹی کوڈ پر کوئی عمل نہیں کیا گیا، کیونکہ یہاں مانیٹرنگ کا کوئی سسٹم موجود نہیں، واپڈا حکام اور کنسلٹنٹ کی ترجیحات میں مزدوروں کے حقوق شامل نہیں، مزدور یونین کو کمزور رکھا جارہا ہے، اسے مزدوروں تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ پاکستان کئی سالوں سے شدید معاشی بحران میں مبتلا ہے، یہ معاشی بحران طویل عرصہ کے ریاستی بحران، آئین و قانون اور پارلیمنٹ کے ساتھ کھلواڑ کا نتیجہ ہے،بدقسمتی سے عدالتیں بھی اس کھیل کا حصہ رہی ہیں اور نظریہ ضرورت کے تحت طالع آزماں کو ریلیف فراہم کرتی رہی ہیں،اس کی قیمت محنت کش عوام کو مہنگائی ، لاقانونیت،غربت ،افلاس اور اپنے حقوق سے محرومی کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہی ہے، اب معاملہ صرف ادارے کے اندر تک محدود نہیں،بلکہ ہرقسم کا مزدور خواہ وہ صنعتی مزدور ہو یا کھیت، گھریلو ہو یا دیہاڑی دار ، ماہانہ تنخواہ پر ہو یا پیس ریٹ پر، ذاتی ملازم ہو یا دکان دار غرض محنت کش کی تعریف میں ہر مرد و خاتون بدترین حالات کا شکار ہیں،ملک کی اشرافیہ جس کے اختیار میں تمام وسائل ہیں وہ ان حالات کو بدلنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی، اور حالات کو بدلنا جن کی ضرورت ہے یعنی مزدور وہ متحد نہیں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ان حالات کو کیسے مزدوروں کے حق میں بنایا جائے،آج کے مزدوروں کے عالمی دن کا یہی سوال ہے، جس کا جواب ڈھونڈنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس کا جواب ڈھونڈھ کر پھر ان حالات کو مزدوروں کے حق میں بدلنے کی حکمت عملی بنانا اس پر اتفاق کرنا اور آئندہ یکم مئی تک مزدوروں کو وسیع تر اتحاد میں شامل کرنا ہم سب کا فریضہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri