گزشتہ 75سالوں سے کشمیر اور فلسطین پر پاکستان کا جو موقف چلا آرہا ہے ، الحمد اللہ آج بھی ہم اس پر قائم ودائم ہیں ، پاکستان ایک پرامن ملک ہے جو خطے میں خونریزی اور جنگ نہیں چاہتا اور تاریخ گواہ ہے کہ چار بار ہمارے ہمسایے نے پاکستان پر جنگیں مسلط کی اور ہماری بہادر افواج نے اس کا منہ توڑ جواب دیا ، 1974میں جب بھارت نے کامیاب ایٹمی دھماکے کئے تو اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ پاکستانی عوام گھاس کھاکر گزارہ کرلے گی مگر ایٹمی قوت ضرور بنے گی اور ان کے موت کے بعد پاکستان نے یہ صلاحیت حاصل کرکے دکھادی ، اسی طرح انہوں نے ایک جلسہ عام تاریخی جملہ کہا تھا کہ اگر مسئلہ کشمیرپر ہمیں بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال تک بھی جنگ لڑنا پڑی تو ضرور لڑیں گے مگر اپنے کشمیری بھائیوں کے اصولی موقف کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے،گوکہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ایک متنازعہ علاقہ کو اپنے یونین کا حصہ بنادیا ہے مگر پاکستانی قیادت آج بھی اپنے اسی اصولی موقف پر ڈٹے نظرآتی ہے ، نگران وزیر اعظم نے آزاد کشمیر کے اندر بیٹھ کر کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر پر 300بار جنگ لڑنا پڑی تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اپنے بھائیوں کو بھارت کے پنجہ استبداد سے آزادی دلواکر رہیں گے ، ان کے اس ولولہ انگیز بیان نے نہ صرف کشمیری بلکہ پاکستانی عوام کے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے اور ان کے اندر موجود جذبہ حریت ایک بار پھر جوان ہوگیا ہے ، گزشتہ روز نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں نے جنوبی ایشیا میں مختلف شعبوں میں شاندار خدمات سرانجام دی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ظلم و جبرکا بھی سامنا کیا ہے، سرحد پار لاکھوں کشمیری عوام اپنی جائز خواہشات کی تکمیل کیلئے ناجائز تسلط سے نجات کیلئے کوشاں ہیں، علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری میں کشمیریوں کی حالت زار کو بیان کیا ہے ۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پچھلی سات دہائیوں سے حل طلب ہے اور یہ 1948سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ سات عشروں سے زائد گزرنے کے باوجود ان قراردادوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا اور اس کی بجائے بھارت کی موجودہ حکومت نے مقبوضہ کشمیر پر اپنے قبضے کو مضبوط بنانے کیلئے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اس متنازعہ علاقہ میں قانون سازی اور کئی انتظامی اقدامات کئے ہیں۔ یہ بھارت ہی تھا جو جموں و کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا اور اس وقت کے بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کئی مواقع پر اپنی مرضی سے کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دینے کی یقین دہانی کرائی، اس کے بعدبھی آنے والی بھارتی حکومتوں نے جموں و کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ہے، موجودہ بھارتی حکومت ان وعدوں سے کس طرح پیچھے ہٹ سکتی ہے، بھارت کو اقوام متحدہ، پاکستان اور سب سےبڑھ کر کشمیری عوام کے ساتھ استصواب رائے کے وعدوں کو پورا کرنا چاہئے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ابھی تک موجود ہیں اور وقت گزرنے سے ان کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیر پر سیاسی عزائم پر مبنی غیر قانونی اور غیر منصفانہ فیصلہ دیا ہے اور بھارتی حکومت کے 5اگست 2019 کے غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات کو جائز قرار دیا ہے، یہ غیر منصفانہ فیصلہ سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کی بھارتی سپریم کورٹ نے دیا ہے ۔ بھارت میں منظم اندا ز میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ریاستی سرپرستی میں ہلاکتوں اور دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے اور دنیا کی یہ نام نہاد جمہوریت کشمیری عوام کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کیلئے استصواب رائے کا حق دینے سے خوفزدہ ہے۔ بھارت کا 5 اگست 2019 کا غیر قانونی اور یکطرفہ اقدام اور اس کے بعد اٹھائے جانے والے اقدامات کامقصد مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب اور سیاسی جغرافیہ تبدیل کرنا ہے، یہ اقدامات بین الاقوامی قانون اور جموں و کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن کی صریحا خلاف ورزی ہیں اور بھارت کشمیریوں کو ان کی اپنی سرزمین سے محروم کرنا چاہتا ہے، بھارت خود یہ تسلیم کر چکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کا تعین جمہوری طریقے سے اقوام متحدہ کے انتظام کے تحت آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے کشمیری عوام اپنی مرضی سے خود کریں گے۔ انتظامی اقدامات اور عدالتی فیصلوں سے بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی نہیں کر سکتا، ایک طرف بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا خواہاں ہے ، دوسری طرف بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس سے ہندوتوا نظریہ کا پتہ چلتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق جموں و کشمیر کا مسئلہ صرف اور صرف کشمیریوں کے استصواب رائے سے حل ہو گا، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ کشمیر پر اپنے قبضے کو دوام بخشنے کیلئے ہے، کشمیریوں نے بھارتی اقدامات کو یکسر مسترد کر دیا ہے، کشمیریوں کو طاقت کے زور پر زیر کرنے کا بھارتی خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔ پاکستان کشمیریوں کی تحریک آزادی کی مکمل حمایت کرتا ہے، بھارتی افواج کے پیلٹ گنز کے استعمال سے لاکھوں کشمیریوں کی بینائی ضائع ہوچکی ہے، ہزاروں کشمیریوں کو شہید کیا گیا ہے اور ہزاروں لاپتہ کر دیئے گئے ہیں، خواتین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے اور اقوام متحدہ کی رپورٹس میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں شہادتوں اور کشمیری رہنماﺅں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے اور بنیادی ڈھانچہ کو تباہ کرنے کے باوجود بھارت کشمیریوں کے آزادی کے جذبے کو دبا نہیں سکتا، دنیا کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوشش کرنا ہو گی، مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر تکمیل پاکستان ممکن نہیں
ڈی آئی خان دہشتگردی ، پاکستان کاافغانستان سے مطالبہ
ایک بار پھر یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان اپنی سرزمین کوپاکستان مخالف سرگرمیوں کے لئے استعمال کررہا ہے اور پاکستان کے اندر دہشتگردی کی کارروائیوں میںاستعمال ہونےوالے دہشتگرد افغانستان کے اندر موجود ہے ،ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے ڈی آئی خان حملے کے ثبوت افغان حکام کے حوالے کیے ہیں، افغانستان نے ڈیرہ اسماعیل خان حملے کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے، افغانستان اسکی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کرے، افغان اتھارٹی سے درخواست ہے دہشتگردوں کے خلاف موثر کارروائی کریں،پاکستان کافی برسوں سے دہشتگردی کا شکار ہے اور پاکستان حقائق پر مبنی بیانات دیتا ہے، ہماری سکیورٹی فورسز دہشتگردوں کا نشانہ بن رہی ہیں، ٹی ٹی پی سمیت دہشتگردوں کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں، افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے لہٰذا افغان عبوری حکومت دہشتگرد گروپوں کیخلاف کارروائی کرے ، افغانستان ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی کر کے ملوث کرداروں کو پاکستان کے حوالے کرے، پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے وہ افغانستان کے ساتھ مثبت اور دوستانہ تعلقات چاہاہے،پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی خبروں کی تردید کرتا ہے، ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان کوئی مذاکرات نہیں کر رہا۔
امیر البحر کا قومی ورکشاپ سے خطاب
ملکی معاشی ترقی میں بحری افواج کا کردار اہم ہے ، اسی حوالے سے چیف آف دی نیول سٹاف ایڈمرل نوید اشرف نے کہا ہے کہ مضبوط میری ٹائم سیکٹر پائیدار معاشی مستقبل کی بنیاد رکھ سکتا ہے، ملکی اقتصادی صورتحال کے پیش ِ نظر پاکستان میں میری ٹائم وسائل کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ پاک بحریہ معاشرے کے پسماندہ طبقے کی معاشی اور معاشرتی ترقی بالخصوص ساحلی پٹی کے افراد کی بہبود کے لئے مختلف اقدامات بھی کر رہی ہے۔پاک بحریہ نہ صرف پاکستانی سمندوں کی نگہبانی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ خطے میں ہونے والی محفوظ معاشی سرگرمیوں کی بھی محافظ ہیں اور ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے اور پاکستان کی مضبوط معاشی مستقبل کی نوید ہے ۔
کالم
مسئلہ کشمیر پر نگران وزیر اعظم کا خطاب
- by web desk
- دسمبر 16, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 762 Views
- 1 سال ago