انفرادی طور پر قوم کاہر فرد ملک کیلئے قربانی دیتا ہے اور ملک کی ترقی کیلئے نیک خواہشات کی تمنا رکھتا ہے لیکن کیا کیا جائے نظام کا اور نظام کو چلانے والوں کا کہ ہمیشہ وہ آڑے آجاتے ہیں اور عوام کی خواہشات کو دبایاتا ہے اور ان کےارمانوں کا خون کیاتا ہے اور ان کی تمناﺅں کو مٹایاتا ہے فاسد نظام نے ہر فرد کوآلودہ کردیا ہے بددیانتی اس کی خمیر میںشامل ہوگئی ہے بھوک سے قوم کا تعلق جڑ گیا ہے اور بد دیانتی ہمارا تعارف بن گیاہے حالانکہ اس ملک سچائی پھیلانے اور عدل اور انصاف پر مبنی نظام اور اعلیٰ اخلاق کو بلند کرنے کیلئے بنا تھا لیکن یہاں فرقہ واریت، کرپشن اور مہنگائی نافذ کی گئی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ باطل فرقوں کی نرسری ہے اور ہرفرقہ اصل اسلام کا ٹھیکہ دار ہے۔ملک عزیز کا سیاسی ڈھانچہ میکاﺅلی کی سیاست پر مبنی ہے ااور اس کا خاصہ یہ ہے کہ اتنا جھوٹ بولوں اتنا جھوٹ بولوں کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگے اس بنا پر سیاست دانوں کے نذدیک امور حکومت چلانے کیلئے عوام صدقے کا بکرا ہیںحالیہ چینی کا بحران اس کا ثبوت ہے یہ مصنوعی بحران پیدا کر کے ملز مالکان نے دلیری سے عوام کے پچیس ارب ہضم کرلیئے ہیںاور عدالتی فیصلہ کو بھی قابل عمل قرار نہیں دیا جارہا ہے ایک وزیر صاحب جن کے ملز والوں سے خصوصی مراسم معلوم ہوتے ہیں اس فیصلے پر عمل مشکل قرار دیا ہے ۔ ملک جو زراعت سے مالامال ہے یہاں پر کبھی غلے اور کبھی چینی کا بحران معنی خیزہے آخر یہ بحران ہوتا ہے یا عوام کے ساتھ مزاق کیا جاتا ہے ؟جھوٹ کیا ہے اور سچ کیا ہے؟ آخر یہ مزاق کب تک؟سیاست دانوں کو عوامی طاقت کا ادراک کب ہوگا؟کیا وہ بھی اس دماغ سے سوچتے ہیں جو ہٹلر کا تھا؟یہ سوچ ہٹلر کی بھی تھی اوروہ عوام کو انتہائی حقیر سمجھتا تھا اور کہتا تھا کہ عوام سست، بزدل اور جذباتی ہوتے ہیں اس بنا پر وہ عوام کو ”بھیڑوںکا بے دماغ ریوڑ“ قرار دیتا تھا اور ایک جگہ پر اس نے عوام کو مجسمہ حماقت بھی کہا ہے اور کہاہے کہ عوام معقول انداز میں سوچ بھی نہیں سکتے ہیں اور وہ نصب العین کے حصول کیلئے © ”بڑے جھوٹ“ کے اصول کوضروری قرار دیتے ہیں وہ کہتا ہے کہ عوام بہت سادہ لوح ہوتے ہیں لہذا چھوٹے جھوٹ کے مقابلے میں بڑا جھوٹ ان کیلئے ذیادہ مﺅثر ہوتا ہے ۔ چھوٹے معاملات میں تو وہ خود بھی جھوٹ بولتے لیکن بڑا جھوٹ بولتے ہوئے انہیں شرم آتی ہے۔ غرض جھوٹ جتنا بڑا ہوگا عوام اسے بے تکلفی سے قبول کر لینگے ۔چونکہ مسلط نظام سرمایہ پرستی، نفس پرستی، سفلیت پرستی اور جاہ پرستی کے جراثیموں سے آلودہ ہے اور عوام کے ذہنوں کو تالے لگ گئے ہیں اس لیئے ہمارا معاشرہ حیوانی گروہیت کا منظرپیش کر رہاہے ہماری سیاست، معیشت اور تجارت مفلوج ہیں مادہ پرستی ہر شخص کی خمیر میں شامل ہوگئی ہے دوسروں کو دہوکہ دیناہر شخص کا نصب العین بن گیا ہے اور جھوٹ بولنے کی رواےت عام ہوگئی ہے ہر طرف دہونس اور دہاندلی ہے اور اخلاقی بگاڑ کا عالم ہے اور جھوٹ کو فروغ مل رہاہے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جھوٹ بولا جارہاہے بڑے لوگ جھوٹ بھی بڑے پیمانے پر بولتے ہیں ِاوراور جو چھوٹے حیثیت کے حامل ہیں ان کے جھوٹ کا پیمانہ بھی ذرا چھوٹا ہوتا ہے ہمارے سیاست دان جن میں خواتین اور حضرات سبھی شامل ہیں جھوٹ بولتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ وہ اس جھوٹ کو ضرورت اور وقت کا تقاضا قرار دیتے ہیں ۔یہ امر لائق غور ہے کہ مذہبی کارڈ استعمال کرنے والے عناصر سرمایہ دارانہ نظام کو مذہب کا محافظ سمجھتے ہیں اور مقدس روایات اور مذہبی اقدار کو اپنے مذموم عزائم کیلئے استعمال کرتے ہیں اور فاسد نظام کا ایک ناکارہ پرزہ بن کر وہ جادووہ جو سر چڑھ کر بولے کے مصداق بنے ہوئے ہیں اور بڑی چابکدستی کے ساتھ عوام کو دھوکہ دینے پینترے بدلتے ہیں اور مکر اور فریب کا مظاہرہ کرتے ہیں البتہ بیانات باقاعدگی سے داغتے ہیں ان کی وجہ سے اور اس قبیل کے دیگر سیاست دانوں کی وجہ سے ملک فرقہ واریت اور ہیروئن کلچر کے لپیٹ میں ہے دینی فلسفے کا پھلاﺅ رک گیا ہے مغربی تہذیب وتمدن کوفروغ مل رہا ہے اور خود غرض سیاست دانوں کی گمراہانہ ذہنیت نے پوری قوم کو جہنم کے گڑھے میں ڈالدیا ہے۔پاکستانی عوام سچے ہیں، وہ محب وطن بھی ہیں ان ہمدردی بھی ہے اور وہ قربانی اور ایثار کے جزبہ سے سرشار ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم پر مسلطہ نظام جھوٹا ہے جس نے ہم سب کو جھوٹا بنادیا ہے دیکھا جائے تو پورا معاشرہ شیطان کے جال میں پھنس چکا ہے کہاجاتا ہے کہ ہم نے بڑی ترقی کر لی ہے لیکن دیکھا جائے تو ترقی جھوٹ کی ہوئی ہے فاسد نظام کی وجہ سے فحاشی کو فروغ دیا جارہاہے ، ہر طرف گروہ بندی اور فرقہ واریت عام ہے چور بازاری ہے اور دو نمبر اشیائے صرف کی تیاری اور خرید وفروخت ہورہی ہے اور پرسان حال کوئی نہیں ہے غلط نظام نے حقیقی دین پر پردے ڈالدئے ہیں اور صرف رسم سامنے نظر آرہاہے آج ہمیں دین کی روح سے واقفیت نہیں ہے جو شخص اعلانیہ دو نمبر کی اشیاءفروخت کرتا ہو اور بے ایمانی اور دہوکہ اس کا شیوہ ہو ااس کی نیکی کی کیا حیثیت ہوگی؟۔چونکہ قوموں کواجتماعی سطح پر بگاڑنے اور سنوانے میں نظام کا کردار بنیادی ہوتا ہے اسلئے جب نظام غلط ہاتھوں میں جاتا ہے تو پھر وہ ایسے کارڈ کھیلتے ہیں کہ ان کے مذموم عزائم بھی پورے ہوتے رہےںاور نظام بھی چلتا رہے چنانچہ وہ نظام کوچلانے کیلئے بیساکھیوں کا سہارا لیتے ہیں اور ایسے عناصر کو پالتو پالتے جن کے کئی چہرے ہوتے ہیں اور لبادے اوڑھ کر وہ سیدھے سادھے عوام کوبے وقوف بنا تے ہیں اس طرح وہبظاہر اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی غلط نظام کا حصہ ہوتے ہیں اور یوں دونوں ملکر عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور غلط نظام کے تحفظ کا فریضہ پورا کرتے ہیںاور کبھی ملکر وہ کبھی آٹے کی بلیک مارکیٹنگ کرتے ہیں اور کبھی چینی کو چھپا کر عوام کے جیبوں پر ڈاکہ ڈاکہ ڈالتے ہیں اور اس کا نام انہوںنے سیاست اور جمہوریت رکھ دیا ہے اور عوام بے چارے بحرانوں کے سایہ میں زندگی بسر کرتے ہیں!۔