حال ہی میں لندن میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی اور امیگریشن و مسلمانوں کے خلاف ایک بڑے مظاہرے میں حصہ لیا یہ گزشتہ کئی دہائیوں میں قوم پرستوں اور سخت گیر نظریات رکھنے والوں کا اتنا بڑا اجتماع پہلے نہیں دیکھا گیا۔ یہ صورتحال اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا واقعی مغربی معاشرے، خصوصا برطانیہ، تیزی سے دائیں بازو کی انتہا پسندی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟اگر پس منظر میں دیکھا جائے تو 2016 میں برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا یعنی "برگزٹ” کے دوران عوام کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ یورپ سے الگ ہو کر برطانیہ اپنی معاشی، پالیسی اور فیصلہ سازی میں مکمل طور پر خودمختار ہو جائے گا۔ یہ پروپیگنڈا اتنا طاقتور تھا کہ عوام کی اکثریت نے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا۔ مگر جلد ہی یہ خوش فہمی حقیقت سے ٹکرا گئی۔ برگزٹ کے بعد برطانیہ کی معیشت سکڑنے لگی، روزگار کے مواقع کم ہوئے، صنعتیں دبا میں آئیں اور عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہو گئی۔اب جب معیشت دبا کا شکار ہے تو اس کا ملبہ تارکینِ وطن پر ڈالا جا رہا ہے۔ 13 ستمبر کو لندن میں ہونے والی ریلی بظاہر یونائیٹڈ کنگڈم کے اتحاد کے لیے تھی، مگر حقیقت میں اس کا رخ مسلمانوں اور تارکینِ وطن کے خلاف نفرت انگیزی کی طرف تھا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے رہنما ٹامی رابنسن سمیت کئی یورپی اور امریکی شخصیات شریک تھیں، جبکہ ٹوئٹر اور ٹیسلا کے مالک ایلون ماسک نے بھی ان نظریات کی تائید میں بیانات دیے۔اس ریلی کے دو بڑے مقاصد تھے۔ پہلا یہ کہ غزہ کے مسلمانوں کے حق میں لندن اور یورپ میں ہونے والے اسرائیل کے خلاف عوامی مظاہروں سے توجہ ہٹائی جائے، اور دوسرا یہ کہ مسلمانوں اور تارکینِ وطن کے خلاف نسل پرستانہ بیانیے کو فروغ دیا جائے۔اسی دوران، 17 سے 20 ستمبر کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ کا دورہ کیا۔ انہوں نے لندن کے تین بار منتخب مئیر صادق خان کو بلاجواز تنقید کا متعدد بار نشانہ بنایا اور یہ کہا کہ وہ برطانیہ کے لیے خطرہ ہیں حتی کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی صادق خان کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور کہا کہ اگر وہ مئیر رہے تو شریعہ کے نفاذ میں مدد ملے گی مزید یہ کہ ٹرمپ نے برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کو نکالنے کے لیے فوج کو بلایا جانا چاہیے۔ان کے اس بیان نے برطانیہ میں سیاسی اور سماجی سطح پر نئی بحث چھیڑ دی اور امیگرنٹس مخالف اور مسلمان مخالف جذبات کو مزید ہوا دی۔13 ستمبر کی ریلی کے بعد برطانیہ میں یونین جیک لہرانے کی مہم شروع ہو چکی ہے، جبکہ دوسری جانب مساجد اور مسلمانوں پر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بظاہر تو یہ تحریک تمام غیر ملکی تارکینِ وطن کے خلاف ہے، مگر حقیقت میں اس کا نشانہ مسلمان بن رہے ہیں۔گزشتہ سال جولائی 2024 میں اسٹاک پورٹ کی ایک مسجد پر حملہ اسی نفرت انگیز ماحول کا تسلسل تھا۔ الزام یہ لگایا گیا کہ ایک مسلمان تارک وطن نے بچوں کے ڈانس کلاس کے کلب پر حملہ کیا اور بچوں کو ہلاک اور زخمی کر دیا، حالانکہ حملہ آور مسلمان نہیں تھا سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلائی گئی۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔حکومت نے ہنگاموں پر قابو پایا سپیشل کورٹس قائم کیے گئے اور نسلی تعصب برتنے اور حملے کرنے والوں میں ملوث و مرتکب ہونے والوں کو سزائیں دی گئی ہیں تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اب برطانیہ میں پیدا ہونے والے تارکینِ وطن اور مسلمانوں کے بچے بھی اس نفرت کو محسوس کر رہے ہیں۔ وہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جن کے والدین نے برطانوی معیشت، صنعت، ٹرانسپورٹ اور ہیلتھ سروس کو سنبھالا، آج انہی کے خلاف نفرت کیوں پھیلائی جا رہی ہے؟اس تمام صورتحال کا سیاسی دبا براہِ راست برطانیہ کی حکمران جماعت لیبر پارٹی پر پڑ رہا ہے، جو سخت امیگریشن پالیسیوں پر کاربند ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ مگر اس کا سیاسی فائدہ نائجل فراج جیسے کردار اٹھا رہے ہیں جنہوں نے برگزٹ مہم کی قیادت کی تھی۔ آج وہ اپنی جماعت ریفارم پارٹی کے ذریعے برطانوی سیاست میں تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ریفارم پارٹی کے تقریبا 900 کونسلرز منتخب ہو چکے ہیں، کئی مقامی کونسلوں پر ان کا کنٹرول ہے، اور ان کی عوامی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ لیبر، کنزرویٹو اور لبرل ڈیموکریٹس تینوں جماعتیں عوامی حمایت میں کمی محسوس کر رہی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ سمیت کئی عالمی شخصیات نائجل فراج کی کھل کر حمایت کر رہی ہیں، اور ممکن ہے کہ آنے والے انتخابات میں ریفارم پارٹی حکومت سازی کی پوزیشن میں آ جائے۔اس بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی کے ماحول میں تقریبا 20 لاکھ پاکستانی برطانوی شہریوں کے لیے حالات مزید مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر چند پاکستانی نژاد افراد کے کم عمر بچیوں کے سیکس گرومنگ کیسز میں ملوث ہونے کے واقعات نے پوری کمیونٹی کے لیے نفرت کو بڑھا دیا ہے جس کی بڑی تعداد میں پاکستانی کمیونٹی نے مزمت کی جبکہ دوسری کمیونٹی کے افراد اس شرمناک فعل میں بڑی تعداد میں شریک ہیں لیکن پاکستانیوں کو سنگل اوٹ کیا گیا یہ صورتحال خود برطانیہ میں بسنے والے مسلما نوں ، پاکستانیوں اور دیگر تارکین وطن کو سمجھداری، اتحاد اور سنجیدگی سے سنبھالنی ہوگی۔ پاکستان یا عرب ممالک کے سربراہان اس بارے میں کوئی مثر کردار ادا نہیں کر سکتے ان کے سطحی بیانات یا رسمی مذمتیں محض خانہ پوری سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔برطانیہ میں بسنے والے مسلمانوں کو اپنے خلاف چلنے والے پروپیگنڈے کا جواب سوشل میڈیا اور عوامی فورمز پر مثر انداز میں دینا ہوگا، مین اسٹریم سیاسی جماعتوں میں پہلے سے زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر اس ملک کی ہر سطح پر اونرشپ لے کر اس کے نظام کا بھرپور حصہ بننا ہوگا۔ یہی واحد راستہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنی شناخت محفوظ رکھ سکیں بلکہ نفرت کے اس بڑھتے طوفان کا موثر جواب بھی دے سکیں۔