کالم

مسلم ممالک اسرائیل سے تجارتی تعلقات ختم کریں

غزہ میں نہتے فلسطینی عوام پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کو پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ ھو گیا ہے ۔ اس اس دوران 31 ہزارر بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا ہے جس میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس قتل عام کے ارتکاب میں اسرائیل کو امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی مالی اور عسکری امداد حاصل ہے۔ غزہ کے 22 لاکھ عوام کو گزشتہ 16 برس سے غیر انسانی محاصرے میں محصور کیا گیا ہے اور انہیں غیر انسانی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔گذشتہ 155 دنوں سے جاری وحشیانہ بمباری کے مقابل فلسطینیوں نے استقامت اور مزاحمت کی ایک سنہری تاریخ رقم کی ہے۔ فلسیطینی خواتین، بچوں اور بوڑھوں نے بھی ثابت کیا ھے کہ وہ آزادی کے حصول کے لیے ھر قربانی دینے کے لئے تیار ھیں اور وطن کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ فلیسطنی تحریک مزاحمت حماس اور ان کے ساتھ مزاحم دیگر تنظیموں نے مکمل اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اور فلسطینی عوام نے ان کی مکمل حمایت کی ہے۔ ان مزاحمتی تنظیموں کو فلیسطنی عوام کا مکمل اعتمادحاصل ھے۔اس کے مقابل اسرائیلی حکومت مکمل انتشار کا شکار ھے۔ قابض اسرائیلی حکومت کا مکمل انحصار امریکہ کی عسکری اور مالی امداد پر ھے جس کے بل ہوتے پر وہ فلسطنی عوام کا قتل عام جاری رکھے ھوئے ھے۔ مغربی ممالک میں اسرائیل کا وحشیانہ چہرہ بے نقاب ھو چکا ہے۔ امریکہ ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں عوام یہ جان چکے ھیں کہ ان کی حکو متیں نہتے فلسطینی عوام کے قتل عام میں ملوث ھیں اور اسرائیلی جنگی جرائم میں شریک کار ھیں۔ اس لیے اب امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتوں پر اپنی رائے عامہ کا دباو¿ ھے کہ یہ قتل عام بند کیا جائے۔ غزہ میں عام شہریوں کیلئے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد کی فراہمی پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ اسرائیل سست رفتار امدادی کارروائیوں کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر عائد کرتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ امدادی سامان مصر سےرفح کراسنگ کے ذریعے غزہ پہنچ رہا تھا جب کہ دسمبر سے یہ سامان اسرائیلی کراسنگ کریم شولوم کے ذریعے پہنچایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی شکایت ہے کہ سرحدی بندشوں، نقل و حرکت پر پابندیوں، ٹوٹی سڑکوں اور دیگر مسائل کی وجہ سے اسے امدادی سامان کی ترسیل اور تقسیم میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ امریکی فوج غزہ پٹی کے لیے ایک عارضی بندرگاہ قائم کرے گی، جس کا مقصد غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد کی ترسیل میں تیزی لانا ہے۔اس اقدام کا مقصد اس محاصرہ زدہ فلسطینی علاقے میں ممکنہ قحط کی صورت حال کو روکنا ہے۔اس سے قبل اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ غزہ میں قحط کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ امریکی حکومت کا امدادی سامان کی ترسیل کےلئے غزہ کے ساحل پر بندرگاہ بنانے کا اعلان دنیا کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس کے ذریعے غزہ میں موجودہ ایمرجنسی کی صورت حال سے توجہ ہٹائی جارھی ھے۔ اور سازشوں کا نیا جال بنا جارھا ھے۔ اس اعلان کو تمام انصاف پسند ممالک مسترد کریں۔امریکہ اور اردن سمیت متعدد ممالک نے غزہ پٹی کے علاقے میں ہوائی جہازوں کے ذریعے خوراک اور امدادی سامان گرایا ہے۔ یورپی کمیشن نے بھی کہا ہے کہ انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے قبرص سے غزہ کے لیے ایک ہیومینیٹیرین راہداری جلد ہی فعال ہو جائے گی۔ تاہم فی الحال یہ واضح نہیں کہ یہ راہداری کام کیسے کرے گی۔ یورپی یونین کے کمیشن کی سربراہ ا±رزولا فان ڈئر لاین نے کہا کہ قبرص سے سمندر کے راستے غزہ تک امدادی سامان کی ترسیل کا کام رواں ہفتے کے اختتام تک شروع ہو جائے گا۔غربی کنارے اور مقبوضہ فلسطین میں اہل فلسطین کو اس لئے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی آزادی کے حق سے دستبردار ھو جائیں اور مقبوضہ فلسطین اور بیت المقدس پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کو تسلیم کر لیں۔حکومت پاکستان اور دیگر مسلمان حکومتیں صرف مذمتی بیانات تک محدود ہیں ۔ او آئی سی کا پلیٹ فارم القدس کے تحفظ اور فلسطین کی آزادی کے لیئے معرض وجود میں آیا تھا۔ پانچ ماہ گزرنے کے باوجود اور غزہ کی مکمل تباھی کے باوجود مسلمان حکومتیں خاموش تماشائی کی طرح بیٹھی ھیں۔ رفح کا بارڈر مصر کی حکومت کی جانب سے بند کیا گیا ہے۔ مسلمان حکومتیں رفح کا بارڈر کھولئے اور امدادی سامان اندر پہنچانے کے لئے مشترکہ اقدام کر یں۔غزہ پر جاری وحشیانہ بمباری فی الفور بند کی جائے اور اسرائیلی افواج فی الفور غزہ کی پٹی سے باھر نکل جائیں۔ دنیا کی تمام انصاف پسند اقدام جنگ بندی کے لیے آواز اٹھائیں اور غزہ میں جاری قتل عام کو بند کرنے کا مطالبہ کریں۔غزہ میں فوری طور پر امدادی سامان اورغذائی مواد ، پینے کا پانی ،ادویات او ر حفظان صحت کا سامان اور خیمے پہنچانے کی فوری ضرورت ھے۔ اسرائیل نے اہل غزہ کو مصنوعی قحط کے ذریعے بھوک سے مارنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ حکومت پاکستان اور دیگر مسلم ممالک فوری اقدام کریں۔ اسرائیل کا مکمل سیاسی ، سفارتی اور اقتصادی مقاطعہ کیا جائے۔ جن ممالک نے اسرائیل کےساتھ تعلقات قائم کیئے ھیں ، وہ تعلقات منقطع کریں۔ تمام مسلمان ممالک اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات فی الفور ختم کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے