کالم

مصباح نوید کی افسانہ نگاری

گزشتہ سے پیوستہ
مصباح نوید کے کردار گالی جیسے ماہر نفسیات کی خدمات سے خوب فائدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں ۔ "سگریٹ کے سوٹے،چ کی دھار رکھتیں مردانہ وار گالیاں، یہ چ کی گالیاں دینے والے, بین چ! اپنے بابت خیال کرتے ہیں کہ انھیں جنا نہیں گیا، آم جامن کے درخت سے ٹپکے ہیں،، روح افزا کے پیگ نے زبان کے تالے اتار دیے تھے، بھئی! کنفرم بدکار عورت یہ، بولڈ یعنی بے حیا، بات بے بات گالیاں بکتی ہے بد کردار!یار بناتی ہے، انسان کا رشتہ؟ نہ! نہ! مرد اور عورت کا ایک ہی رشتہ، بستر کا رشتہ ” یہ بالکل مختلف اسلوب و انداز و آہنگ ہے۔افسانے "پیر بابا کی جوئیں ” میں افسانہ نگار نے دونوں ہاتھوں میں قلم کی بجائے تلوار پکڑ رکھی ہے ، حقیقت نگاری رہی ایک طرف ، ایسی طویل باتیں اتنے اختصار کے ساتھ کون لکھ سکتا ہے۔ "سر آئینہ جوانی کو آوازیں دیتی ہوئی نظر ٹکرا کر پلٹی۔جوانی تو بارہا کیش کروائی گئی۔محبوب کنگال تھا۔ اس کے بازں پہ سر رکھ کر بڑے لاڈ سے کہا:جانو! یو کانٹ افورڈ می۔۔۔۔عقل کا اندھا! بات نہیں سمجھا بریک اپ! امیر بوائے فرینڈ نے بھی کہیں کا نہ چھوڑا۔ خبیث کیسی بے حیائی سے منہ پھاڑ کر کہتا تھا۔جب بازار میں دودھ باآسانی دستیاب ہو تو گھر میں بھینس پالنے کا جنجال کیوں کیا جائے۔ بریک اپ! پھر چل سو چل۔ آدمی سے کیا امید رکھنی،ایک خدا ہی تو ہے جسے پلٹ کر پکارا جا سکتا ہے۔سکون نماز ہی میں ہے۔شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے اپنے کانوں کے پور دباتے ہوئے خاتون خانہ نے سوچا۔،اب دیکھو نا! سجدہ نہیں کیا جاتا درمیان میں پاپی چربیلا پیٹ آجاتا ہے۔”۔۔مصباح نوید کوئی نئی ، اجنبی یا انوکھی بات نہیں لکھتی ،وہ زندگی کے عام مناظر پر اپنے پرجلال قلم سے روشن کر کے دکھاتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ یہ منظر انوکھا، یہ تحریر انکشافات سے معمور اور یہ اسلوب نادر ہے ۔یہ سب کچھ نہ تو انوکھا ہوتا ہے ،نہ ہی انکشافات سے معمور اور نہ ہی اسلوب نادر ہوتا ہے ۔وہی الفاظ لیکن معنی جدا اور معنویت منفرد۔ "سورج نکلتے شکم سیری کے لوازمات تیار ہونا شروع ہوجاتے.شوہر کے لمبے کدالوں جیسے ہاتھ ڈائٹنگ ٹیبل سے کھانا سمیٹتے اور چالیس چوروں کے غار جیسے منہ میں انڈیلتے رہتے۔منہ سے کچے تھوم پیاز کے سے بھبھکے اٹھتے اور فرنچ کس کا بھی اصرار۔بدبودار پسینے سے پپسیجے انڈر وئیر دو انگلیوں سے ایسے اٹھاتی جیسے مری ہوئی چھپکلی اٹھائے ہو، ناک سکیڑے بغیر واشنگ ٹب میں پھینکتی۔ تربوز جیسی توند فٹ آگے مینڈک کی طرح پھدکتی۔توند کو دیکھ کر خاتون خانہ کو ہمیشہ ابکائی آتی تھی لیکن چہرے پہ مسکراہٹ چپکائے واری واری جاتی۔کچھ راتیں شوہر کی باہر مخصوص ہوتی تھیں۔ پوچھنے پہ ہمیشہ جواب ملتا۔تمیں اس سے کیا غرض ؟؟؟ خرچہ پورا ملتا ہے نا! خاتون خانہ کندھے اچکاتی سوچتی۔مجھے کیا!خرچہ تو پورا ملتا ہے نا۔۔ہاتھی پھرے گاں گاں جس کا ہاتھی اسی کا ناں ۔اس طرح کی بے رحم حقیقت نگاری کے لیے ایک جدا قسم کی بہادری اور ایک الگ طرح مشاہدہ درکار ہوتا ہے ، مصباح نوید تجربے اور مشاہدے کی خالی جگہیں اپنے توانا تخیئل سے پر کر لیتی ہے۔اس کا تخیل شرارتوں کی پوٹلی کی طرح کا ہے ، جب ایک بار کھل جائے تو پھر اس پوٹلی میں چھپی شرارتوں کو سمیٹنا مشکل ہو جاتا ہے ۔مصباح نوید نے تحمل ،ضبط اور صبر کے ساتھ اپنے مشاہدات ، تصورات ،خیالات اور نظریات کی پرورش کی ہے ۔اسے لکھنے ، کچھ کہنے اور کچھ کر گزرنے کی جلدی کبھی نہ رہی ۔ایسا نہیں کہ اب اچانک اس کے اندر ایک افسانہ نگار کی روح حلول کر گئی ہے ۔ایسا نہیں ہے، اس کے اندر افسانہ نگار کی روح بند نہیں ہے ،وہ خود سراپا افسانہ ساز اور افسانہ نگار ہے۔اس نے کہنے اور لکھنے سے زیادہ سوچا ہے ، سمجھا ہے اور برداشت کیا ہے۔جبھی تو وہ جب لکھتی ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ سب جانتی ہے ،اس نے سب دیکھ رکھا ہے۔ ،اس نے سب کچھ برداشت کر رکھا ہے ۔اس کا آہنگ مقامیت کی لے سے معمور اور انداز و اسلوب کردار کی نفسیات کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ "سوچیں بھی پوری پھپھے کٹنیاں ہوتی ہیں۔تیلیاں لگانے سے باز نہیں آتیں ۔خاتون خانہ کے کانوں سے شعلے سے نکلے۔ پیشے والیاں ریٹائر منٹ کی عمر سے پہلے تو پیار، خیال،دھیان سے رہتی ہیں اور ہم شریف بہو بیٹیاں صدیوں سے توقعات،فرضیات کے چھکڑے میں اس تھکے ماندے اونٹ کی مانند جتیں ہیں جس کے لیے چڑھائی لعنت تو اترائی لخ لعنت۔”یہ سب پڑھنے کے بعد کھوج ہوئی کہ مصباح نوید کے دیگر افسانے کدھر ہیں ،تو معلوم ہوا کہ گزشتہ برس یعنی 2021 میں ان کے افسانوں کا مجموعہ چندن راکھ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے ۔گویا مصباح نوید کی طرف تحریری اعلان جنگ کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ 1936 میں شائع ہونے والے علامہ اقبال کے اردو مجموعہ کلام ضرب کلیم کے سرورق پر جلی حروف سے لکھا ہوا ہے ،اعلان جنگ دور حاضر کے خلاف ۔ افسانہ نگار کے لیے میرا مشورہ ہو گا کہ وہ اپنے دوسرے مجموعے کے سرورق پر اس مضمون کا جملہ شامل کر سکتی ہیں ۔چندن راکھ کل سولہ افسانوں پر مشتمل ہے اس میں سال بائیس میں لکھے افسانے میجک مرر اور پیر بابا کی جوئیں شامل نہیں ،لیکن میرے مطالعے میں آنے والا تیسرا افسانہ تا کاکا شامل ہے۔ مصباح نوید نے دیر سے لکھنا شروع کیا ،لیکن بہت ہی اچھا کیا ؛ کیونکہ جینے کا فیصلہ جب بھی کر لیں ، زندگی وہیں سے شروع ہو جاتی ہے۔جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں مصباح نوید کے لیے لکھنا ذہنی ورزش اور روحانی مسرت ہے۔بطور افسانہ نگار اس کی فوقیت اس سربستہ راز سے آگاہی ہے کہ ، ہمارے یہاں کم یا زیادہ سبھی لوگ پاگل ہوتے ہیں۔ اور جو پاگل نظر نہیں آتے ، وہ خطرناک ذہنی مریض ہوتے ہیں۔جس افسانہ نگار کے احاطہ ادراک میں یہ واقفیت شامل ہو ،اس کے کہنے اور لکھنے میں الگ طرح کی دانش پنہاں ہو گی۔ہر تیر کی طاقت اس کے ہدف میں ہوتی ہے۔ مصباح نوید کی کہانی اور انداز و آہنگ کا ہدف سراسر سدھار اور اصلاح نظر آتا ہے ۔یہ ہدف موضوعات اور تفصیلات کو ایک طوفان کی طرح ہوا میں اچھالتا ہے، لہراتا ہے ، خوفناک آوازیں نکالتا ہے، دیکھنے والا پتھرا جاتا ہے ، سننے والا گبھرا جاتا ہے ۔لیکن جیسے ہی طوفان تھمتا ہے ، وہ بات سنائی دے جاتی ہے جسے ہم سنتے تو تھے ،پر شور سمجھ کر نظر انداز کر دیتے تھے،ہمیں وہ حقیقت بھی دکھائی دینے لگتی ہے جسے ہم افسانہ سمجھ کر عموما آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ ” چندن راکھ ” کے سولہ افسانے اسی طرح کے تجربات نظر آتے ہیں۔ وہ سب کچھ جسے ہم سمجھنے اور ماننے پر آمادہ نہیں ہوتے ،پر وہ سب کچھ ایک بے رحم و بد لحاظ حقیقت کی طرح موجود و موثر رہتا ہے۔چندن کی دلنوازمہک اپنی جگہ ،پر راکھ تو راکھ ہی ہوتی ہے ، وہ خوشبودار ہو یا نہ ہو ۔اس مجموعے کے چودہویں افسانے چندن راکھ کا مآل ہمارے بے حس معاشرے کا وہ رخ ہے ،جس کے بعد کسی سمت کی کوئی اہمیت اور حیثیت باقی نہیں رہتی۔”جواں دھیاں کمرے میں ایسے بند کر رکھی ہیں جیسے مرغیاں ڈربے میں،کسی سے بھی بات نہیں کرنے دیتا،خورے! گھر سے بھاگی کہ ویہڑے ہی میں کٹ کپ کے دبا دیا۔ لوکی تو بات ہی نہیں کرتے جیسے وہ تھی ہی نہیں_”مصباح نوید ایک مختلف دنیا کی رہائشی اور ایک جدا اسلوب و آہنگ کی افسانہ نگار ہے۔ اس کی ذہنی کشادگی بند معاشرے کے کواڑ کھولنا چاہتی ہے ، وہ اپنی سوچ کے سورج کی کرنوں سے تاریکی کے بت مسمار کرنا چاہتی ہے ۔وہ خوف کی ازلی دشمن ہے ، وہ خوف کے پروردہ مردوں کے ذہنی امراض کی دشمن ہے۔وہ جہالت ، ظلم ، انصافی ،بددماغی اور عورتوں کو انسان کی بجائے جانور اور آزاد کی بجائے غلام بنانے یا سمجھنے والوں کی دشمن ہے ،اردو ادب میں ایسی دشمن دار افسانہ نگار اور کون ہو گی؟۔۔۔۔(ختم شد)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri