کالم

مغربی روایات کے پجاری

میں سوچ رہا تھا کہ بہت ساری چیزیں / روایات ہیں جو شعوری یا غیر شعوری طور پر ہمارے معاشرے میں نہ صرف رائج ہو گئیں بلکہ ہماری زندگی کا حصہ بن گئیں، مغربی معاشرے میں یا دوسرے معاشروں میں تقریبا ہماری ایک جیسی روایات اور اعمال ہیں مثلا مرنا تو سب نے ہے چاہے وہ مسلمان ہوں ہندوہوں سکھ یا عیسائی ہوں، مغربی دنیا کا رہنے والا ہو اسکی موت پر رونا بھی آتا ہے آنسو نہ مسلمان ہیں نا ہندو سکھ عیسائی یہ آنسو زندہ انسانوں کی آنکھوں سے غم اور دکھ اور تکلیف کے وقت بہتے ہیںغور کریں جو کام ہم کرتے ہیں وہ غیر مسلم بھی کرتے ہیں پیدائش اور موت پر کوئی بحث نہیں ایک ہی طرح کا عمل ہے ۔ رونے اور ہنسنے پر بھی بحث نہیں بھوک لگتی ہے تو ہر انسان کھانا کھاتا ہے بچوں کی شادی نان مسلم بھی کرتے ہیں ہم بھی کرتے ہیں وہی رسوم رواج اپنا کرہم خوش ہوتے ہیں ، بیٹیاں ہم بھی بیاہتے ہیں دیگر مذاہب کے لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں دولت ہم بھی گنتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں جو دعائیں آرزوئیں دنیاداری کی ہم مسلمانوں کی ہیں وہی آرزوئیں دیگر مذاہب کے لوگوں کی بھی ہیں ۔ مسلمان دعا کرتا ہے یا اللہ ایک اچھا گھر بنانے کے لیے دولت عطا فرما دے کافر بھی اسی طرح کی دعائیںمانگتا ہے اچھی زندگی گزارنے کے مواقع مسلمان کی خواہش ہوتی ہے یہی خواہش غیر مسلم کی بھی ہے بیماری میں اسپتال ادویات ڈاکٹر اچھے ہونے چاہئیں یہی طلب اور آرزو غیر مسلم کی بھی ہوتی ہے بچوں کی تعلیم اور تربیت آرزو اچھی ہونی چاہیئے یہی خواہش کافروں کی بھی ہے ہم بھی اچھے مستقبل کی کوشش میں لگے رہتے ہیں غیر مسلم بھی ایسی تگ و دود میں رہتا ہے ۔ ملک میں حکومت ہونی چاہیے جو عوام کی خواہش اور مرضی کے مطابق معرض وجود میں آئے لہذا غیر مسلموں نے کہا عوام کی طاقت عوام کے ذریعے اور عوام کی مرضی سے بننی چاہیے یہ ڈیمو کریسی یورپ میں آئی وہاں سے سفر کرتی ہوئی ہمارے پاس پہنچ گئی ہمارے ہاں یہ طرز حکومت اتنی کامیاب کیوں نہیں ہوئی اسکے لیے بہت دلائل ہیں ہمارے ہاں نہ تعلیم ، نہ تربیت ، نہ اخلاق، اور نہ حسن سلوک اور نہ ہی سوچ بچار کا معیار ، عوام کی اکثریت جاہل جزباتی مرنے مارنے پر ہر وقت تیار، قسمیں کھا کر گھٹیا مال بیچنے والا کاروباری طبقہ ، جان مال عزت ہر وقت داو پر لگے رہتے ہیںقتل اور لوٹ مار معاشرے میں عام سی بات بن چکی ہے ۔ جمہوریت نے ہمارے ملک کو کہاں پہنچا دیا ہےاس وقت ملک کن حالات میں ہے کیا جمہوریت اسی کانام ہے۔ میرے خیال میں پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں چار فعہ مارشل لا لگ چکا ہے باقی سالوں میںلنگڑی لولی جمہوریت ہے ہمارے ہاں سیاست ایک انڈسٹری بن چکی ہے سو لگاو ہزار کماو کھڑپینچی الگ۔ ووٹ کی اہمیت توہے لیکن ووٹ کے زریعے بننے والی حکومت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی طاقتور طبقہ جب چاہے اسے گھر بھیج سکتا ہے ۔ جمہوریت میں اکثریت کا فیصلہ ہوتا ہے لیکن آپ سوچیں کیا پیغمبر ووٹ سے بنتے ہیں کیا امام ووٹ سے بنے ، کیا غوث قطب ابدال ووٹ سے بنتے ہیں کیا کوئی ولی اللہ ووٹوں سے بناان تمام مراتب کو اللہ تعالی بناتا ہے اسی نے انسان تخلیق کیا اور اسی نے زندگی گزارنے کے رہنما اصول عطا فرمائے ۔ تعلیم اور تربیت کا ایک اعلی نظام دیا جس سے کردار سازی ہو اور ہر شخص فساد اور عناد پالنے کی بجائے معاشرے کا کارآمد فرد بن کر موجود ہو ۔ اسلام کی جمہوریت مذہب پر عمل کرنے سے شروع ہوتی ہے ایک مثالی معاشرہ قائم ہوتا ہے قرآن اور سنت پر عمل کیا جاتا ہے اور یہی معاشرے میں نافذ ہوتا ہے اسوقت ہمارےحکومتی مرتبے مغرب سے آئے ہیں جمہوریت کے فیصلے کہاں سے آتے ہیں ووٹ سے ۔ ووٹ کافر بھی دیتا ہے مسلمان بھی ووٹ کاسٹ کرتاہے مغرب میں بھی حکومتیں ووٹ کے ذریعے بنتی ہیں ۔ اب کونسی ایسی چیز ہے جو غیر مسلموں میں نہیں لیکن ہم میں ہے تو وہ ہے ایمان۔ ہم نے کبھی اسے اہمیت ہی نہیں دی روائتی انداز میں سب چل رہا ہے جتنی اس وقت زندگی کی سہولتیں ہیں وہ مغربی ایجاد ہیں ۔ ہمارا دل و دماغ تو صرف دنیاوی چیزیں مانگتا ہے وہی ماحول چاہتا ہے وہی سہولتوں کا طلبگار ہے وہی طرز حکومت ہے حکومت کا وجود میں آنے کا مغربی طریقہ کار ہے ہم مغربی طرز حیات پر رہ کر زندگی گزار رہے ہیں ۔سوچنے کا مقام ہے کیا ہم صحیح راہ پر ہیں کیا معاشرہ ایسا ہونا چاہیے جو مذہبی زندگی اللہ کے بتائے ہوئے قوائد و ضوابط پر ہونی چاہیے اسکا دوردور تک پتہ نہیں نہ ہم ایسے ماحول کو پسند کرتے ہیں ہم آزاد پنچھی بن کر رہنا چاہتے ہیں۔ ہمیں خوف اور ڈر نہیں اللہ جھٹکے لگاتا ہے لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتی ۔ آخرت پر یقین ہونا مذہب کا حصہ ہے روز قیامت سب کچھ سامنے آ جائے گا سخت محاسبہ اور نتائج پھر کوئی طرز حکومت اور ماحول کام نہیں آئے گا۔ کافرانہ ماحول ظاہری شان، شوکت کا قائل ہے اور مومن آخرت کا خیال رکھتا ہے ۔اور آخرت کا قائل ہے ۔ کافر اس سوچ سے بالکل آزاد ہیں وہ صرف اپنے آپ کا خیال رکھتا ہے ۔ اللہ فرش اور عرش کا مالک ہے انسانوں پر حکمرانی اسی کی ہے زمین پر حکم اسی کا چلتا ہےلیکن بدقسمتی سے زمینی انسان اس پر کبھی غور فرمانے کی زحمت ہی نہیں کرتا مسلمان اپنے خالق کے حکم کو جانتا اور مانتا ہے وہ غیب کے ساتھ اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ سے ڈرتا ہے اگرچہ وہ ہمیں نظر نہیں آتالیکن کچھ لوگ اللہ سے ڈرتے نہیں اپنی من مانی کرتے ہیں وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ مسجد کے باہرنعوذباللہ ، اللہ نہیں ۔ وہ شخص جو اللہ کو بغیر دیکھے ڈر اور خوف میں رہتا ہے وہ مسلمان ہے اور اللہ کے بتائے ہوئے زندگی کے اصولوں پر چل کر زندگی گزارنے والا کامیاب ہوتا ہے ۔ اللہ کوا للہ کہہ کر ماننے والا اور اسکے احکامات کی پیروی والا کامیاب ہوتا ہے زندگی مختصر اور پھرانشااللہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی اس کا مقدر ہوگی ۔ سوچنے کا مقام ہے ہم نے معاشرے اور حکومت کو مغربی طور طریقوں پر ڈالا ہوا ہے اندھی تقلید اور اسی طرح کے نتائج ۔ اسلامی ملک ہونے کے باوجود ہماری زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں۔ صرف پانچ وقت نماز پڑھ لینے اور زندگی کو مغربی اصولوں کے مطابق گزارنے سے معاشرہ اسلامی نہیں بن سکتا یہ اس وقت تعمیر ہو سکتا ہے جب قرآن و سنت رسولﷺ کی صحیح معنوں میں پیروی کی جائے ہماری حکومت بھی صحیح معنوں میں اسلامی ہو حکومت کے کارندے بھی اسلامی مزاج رکھنے والے ہوں دنیا کی طلب اتنی ہی ہو جتنی زندگی گزارنے کے لئے ضرورت ہے موت کا پتہ نہیں کب آ جائے ہوس سے اکٹھا کیاہوا مال یہیں پڑا رہ جائے گا خالی ہاتھ آئے تھے اور خالی ہاتھ واپس جانا ہے ساتھ اعمال ہوں گے جس کا محاسبہ اللہ پاک خود کریگا ۔ نہ جانے ہم کیوں صحیح معنوںمیں اسلام قائم نہیں کرتے ملک کو دنیا کے نقشے پر قائم ہوئے پچھتر سال گزر گئے اس طویل عرصے میں ہم جمہوریت کا راگ الاپتے رہے اسی سے بننے والی حکومت قائم کرتے رہے اسلام کے نام پر بننے والا ملک اسلام کے اصولوں سے دور ہے نہ معاشرہ اسلامی بنا سکے نہ ہی انفرادی اور اجتماعی طرز حیات کو اسلام کے سانچے میں ڈھال سکے ۔ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیز میں تعلیم اور معیار تعلیم مغربی طرز پررائج ہے جب یہ ماحول ہوگا تو پھر نتائج کیا ہوں گے اب تک لوگ روٹی کپڑا اور مکان میں الجھے ہوئے ہیں کوئی بھی ایکدوسرے کے ساتھ مخلص نہیں مفاد پرستی عروج پر ہے جس کے پاس دولت ہے وہ کامیاب ہے جس کے پاس کردار کی دولت ہے وہ اتنا ہی کمزور ہے معاشرے میں اسکی کوئی اہمیت ہی نہیں اسے ہمارا معاشرہ بیوقوف کے لقب سے یاد کرتا ہے یہ سوچ اور عمل یقینی طور پر مذہب سے دوری کی وجہ سے ہے ہم خوش قسمت ہیں اللہ نے ہمیں مسلمان بنایا اسلام اور ایمان کی دولت عطا فرمائی لیکن ہم مغربی تقلید میں لگے ہوئے ہیں جمہوریت کا شور ہے یہ وہ طرز حکومت ہے جسمیں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ووٹ پر ہر ایک کا حق ہے کردار چاہے یا نہ ہو۔ اسلامی معاشرے میں کردار سازی ہوتی ہے جب اللہ سے ڈرنے والی مخلوق ہوگی تو نہ صرف معاشرہ بلکہ طرز حکومت بھی اسلامی ہوگا اور زندگی کی مشکلات اور مصائب بھی کم ہوں گے خوشحالی ہوگی حقوق کا تحفظ ہوگا بہترین معاشرہ اور معاشرت ہوگی کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم مغربی پجاری نہ بنیں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے