کالم

مفت آٹا۔۔۔۔!

khalid-khan

پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی متحدہ حکومت نے ڈالراور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے بعد ایک اور بہت اہم کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں کہ وہ لوگوں کو مفت آٹا دے رہے ہیں،دیکھ لیں ! ہمارے حکمران کتنے غریب پرور ہیں اور اپنے لوگوں سے کتنی ہمدردی ہے۔پھر بھی بعض لوگ ہمارے اچھے اور عوام دوست حکمرانوں پر تنقید کرتے ہیں۔ گو کہ غصہ حرام ہے لیکن مجھے ایسے لوگوں پر غصہ آتا ہے جو خواہ مخواہ حکمرانوں پر تنقید کرتے ہیںتو لہٰذا ناقدین کو ہمارے حکمرانوں پر تنقید کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے اور ہر چیز کو مثبت انداز سے دیکھنا چاہیے۔ ہمارے معزز حکمرانوں نے بہت سوچ وبچار ، کافی غور وفکر اور دور رس نتائج کو دیکھتے ہوئے مفت آٹا اسکیم شروع کی۔ہر انسان کوئی بھی کام کرتا ہے تو اس کے فائدے کو دیکھ کر کرتا ہے۔بعض اس دنیا کے فائدے کےلئے کام کرتے ہیں اور بعض لوگ اگلے جہان کےلئے سوچتے ہیں ۔یہ ہر انسان کی اپنی سوچ ہے لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ انسان فائدہ کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا ہے،یہ اچھی بات ہے کہ انسان بے فائدہ اور بے مقصد کاموں سے پرہیز کرنے کی سعی کرتا ہے۔اسی طرح ہمارے حکمران بے مقصد کام نہیں کرتے ہیں ،مفت آٹا اسکیم کے بھی حکمرانوں کو بہت سارے فوائد ہیں،جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔ (الف) حکمران ایسے پراجیکٹس کیش کرنے کےلئے لانچ کرتے ہیں، ایسے منصوبوں سے سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں ۔ (ب) اس طرح اسکیموں میں کرپشن آسان ہوجاتی ہے۔ مثلاً ایک شہر میں پچاس ہزار آٹے کے گٹو تقسیم کریں گے توسرکاری ریکارڈ میںلاکھوں درج کریں گے ۔جس طرح بلین ٹری میں کم پودے لگائے گئے لیکن اعداد وشمار میں زیادہ دکھائے گئے ۔ (ج) حکومتیں عوام کو عموماً اسی طرح اسکیموںمیںمگن رکھتی ہیں تاکہ عوام کی توجہ اِدھر اُدھر نہ بھٹکے یا حکومت کی کارکردگی کی طرف نہ جائے ۔ (د) حکمران ایسی اسکیموں کے ذریعے مخصوص صنعت کاروں ، ٹھیکیداروں یا بزنس مین کو بھی نوازتے ہیں تاکہ وہ الیکشن مہم ، جلسے جلسوں یا دوسری سرگرمیوںوغیرہ پراخراجات وغیرہ کرسکیں۔چھوٹے بڑے پراجیکٹس میں جہاں افسران ودیگر ملازمین کا حصہ ہوتا ہے ،اسی طرح پراجیکٹس میں سیاستدانوں کا بھی حصہ ہوتا ہے،سیاستدان عموماً منظور نظر ٹھیکیداران کو ٹھیکے دلواتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر میں سیاست عبادت نہیں بلکہ بزنس بن چکی ہے۔ (ر) فری آٹا اسکیم کے پس پردہ میں حکومت کی ایک اور چال دیکھیں کہ رمضان سے پہلے دس کلوگرام آٹاکے گٹو کی قیمت 648 روپے مقرر تھی ، حکومت مفت آٹا کے چکر میں دس کلوگرام آٹے کے گٹو کی قیمت ڈبل کردی۔ حکومت مفت آٹا کی بجائے دس کلوگرام آٹے کی قیمت چار سو روپے اور بیس کلوگرام آٹے کی قیمت آٹھ سو روپے مقرر کردیتی تو وہ بہتر تھا۔ اس سے لوگوں کو آسانی سے آٹا مل جاتا اور سفید پوش بھی آٹا خرید لیتے لیکن اب دس کلوگرام آٹے کے پیچھے لوگوں کی جانیں بھی جارہی ہیں اور سفید پوش طبقہ بھی محروم ہورہا ہے ۔ (س)حکومت کی تمام تر مشنری آٹے کی تقسیم پر مصروف ہے، افسران کو بھی بہانہ مل گیا ،وہ بھی آٹے کی تقسیم میں محو ہیں۔اس سب تماشے سے دیگر اہم امور متاثر ہورہے ہیں اور پٹرول اور دیگر مدات میں ملک کا کتنا خرچ اور نقصان ہورہا ہے؟ اگرحکمران اتنے عوام دوست ہوتے تو پاکستان میں بے روزگاری، افلاس اور غربت نام کی چیز نہ ہوتی ۔ (1) پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے ۔ پاکستان کی اکثریت زراعت سے وابستہ ہے لیکن عوام کو دو ٹائم کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔لوگ دس کلوگرام آٹے کے گٹو کے حصول کےلئے در وبدر اور پورا دن ذلیل و خوار نہ ہوتے۔ حکمرانوں کے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وطن عزیز پاکستان میں زرعی زمینوں کو ختم کررہے ہیں اور ان پر ہاﺅسنگ سوسائٹیاں بنارہے ہیں۔دنیا کے کسی ملک میں زرعی زمینوں پر ایسی اسکیمیں نہیں بنتی ہیں، جس طرح وطن عزیز پاکستان میں بن رہی ہیں۔ (2)پاکستان معدنی دولت سے مالا مال ہے لیکن ہمارے ملک کی معدنیات سے عوام کو کتنا فائدہ مل رہاہے؟ سب آپ کے سامنے ہے ۔ (3µ)پاکستان سستی ترین بجلی پیدا کرسکتا ہے اور اتنی زیادہ مقدار میں بجلی پیدا کرسکتا ہے جو جنوبی ایشیا کےلئے بھی کافی ہوگی۔ (4) پاکستان سیاحت سے سوئزرلینڈ سے 100 گنا زیادہ رقم کماسکتا ہے لیکن پاکستان میں سیاحت کے فروع کےلئے حقیقی معنوں میں کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ پاکستان میں محکمہ سیاحت اور آثار قدیمہ کے ملازمین کا رویہ خوشگوار اور مناسب نہیں ہے ۔ بہتر یہ ہوگا کہ محکمہ سیاحت اور آثار قدیمہ وغیرہ کو مکمل طور پر پرائےویٹ کیا جائے تو سیاحت سے پاکستان کو سالانہ کھربوں ڈالر حاصل ہونگے ۔ ہمارا ملک آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے چنگل سے آزاد ہو جائے گا ۔ (5 حکومت عوام کو بھکاری نہ بنائے ، عوام کو فری آٹا نہ دیں بلکہ لوگوں کو روزگار دیں تاکہ لوگ خود کما کر کھا سکیں۔سرکار مدینہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شخص مانگنے کےلئے آیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں کوئی چیز ہے تو اس شخص نے بتایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں ایک پیالہ اور ایک کمبل ہے،میں پیالے میں پانی پیتا ہوں جبکہ کمبل کو آدھا بچھاتا ہوں اور آدھا اوڑھتا ہوں۔حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جاﺅ !گھر سے دونوں چیزیں لے آﺅ، وہ جاکر دونوں چیزیں لے آیا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ دونوں چیزیں بیچ دیں ، پھراس شخص سے فرمایا کہ بازار سے کلھاڑی خرید کر لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کلھاڑی میں اپنے دست مبارک سے دستہ ڈالا۔ اس شخص سے فرمایا کہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں بیچ دیا کریں، کچھ عرصہ کے بعد وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں خود کفیل ہوگیا ہوں اور میرے حالات بہترین ہوگئے ہیں ۔ اسلام میں اپنے ہاتھوں سے کمانے کی تلقین ہے ۔ اسلام نے اپنے ہاتھوں سے کمانے والے کو اللہ کا حبیب قرار دیا ہے۔ لہٰذا حکمرانوں سے استدعا ہے کہ ملک میں فری آٹا ، سرکاری دسترخوان، بےنظیر کارڈز وغیرہ کی اسکیموں سے عوام کو بھکاری نہ بنائیں بلکہ عوام کو ہنر سکھائیں اورلوگوں کو روزگار دیں ۔ لوگوں کو بزنس کی طرف راغب کرنے کےلئے مختلف قسم کی ورکشاپس کا انعقاد کریں ۔ لوگوں کو سستا آٹا دیں، عوام کو سستی چیزیں فراہم کرنے کو ترجیج دیں۔آئی ایم ایف شرائط کے نام پر ستم بند کریں۔ملک میں بلاتفریق کسی کو فری بجلی، پٹرول ، ڈیزل ، گاڑی ، گھر وغیرہ نہ دیں بلکہ کسانوں اور صنعت کاروں کو سستی ترین بجلی ، پٹرول، ڈیزل ، کھادیں اور ادویات دیں تاکہ وہ سستی اجناس پیدا کرسکیں اور عوام کو سستی چیزیں مل سکیں۔عوام کو مفت آٹا نہ دیں بلکہ آٹا سستا کریں تاکہ سب آسانی سے آٹا خریدسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے