کالم

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کومیں

موجودہ معاشی حالات کا جتنا بھی تجزیہ کریں نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ حیراںہوں دل کو رووں یا پیٹوں جگر کومیں ، مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کومیں۔ گھریلو بلوں کی ادائیگی کی جائے تو بندہ سوچ میں پڑجاتا ہے کہ مہینے بھر کی ضروریات زندگی کیسےپوری کرسکیں گے ادویات اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ بس توبہ ہی بھلی اس وقت اگر گھر کے پانچ افراد ہیں تو ان میں دو افراد ضرور شوگر بلڈپریشر یا پھر ہارٹ کی ادویات استعمال کرتے ہیں ماہانہ آمدنی سے بلوں کی ادائیگی کے بعد مہینہ بھر کی ادویات خرید لی جائیں تو پھر نوبت فاقہ کشی پر آ جائے گی حکومت نے بہت سوچ سمجھ کر عوام کو اللہ والا بنانے کا عزم کیا ہے نہ زیادہ کھاو نہ متعدد جوڑے لباس کے بنائے جائیں بس ہاتھ میں تسبیح سر پر ٹوپی صبر شکر کے سہارے زندگی گزرتی رہنی چاہیے کچھ عرصہ گزرے گا تو لوگ تعویز کروانے اور اپنی مرادیں پوری کروانے کےلئے آنا شروع ہو جائیں گےزرمبادلہ خوب اکٹھا ہوگا اور ماحول بے ضرر ہو جائے گا جب ضروریات ہی نہ ہوں گی تو پھر نہ حکومت کو بددعائیں ملیں گی اور نہ ہی عوام روٹی کپڑا اور مکان کی طلبگار ہوں گی سادہ زندگی حقیقت کے قریب تراور مثالی پرسکون معاشرہ ہوگا۔ اللہ بھلا کرے بجٹ بنانے والو ں کا جنہوںنے آئی ایم ایف کے احکامات کی تعمیل میں آنکھیں بند رکھیں اور عوام پر ٹیکسوں کی بھر مار کر دی مجھے امید ہے کچھ عرصہ بعد ہم ماضی میں داخل ہو جائیں گے مستقبل تو اک خوا ب ہے جو پچھتر برسوں سے ہتھے نہیں چڑھ رہالالٹین کی روشنی میں گھر چمکنے کی کوشش میں ہوں گے اور گھر والے رات گزرنے کی دعاوں میں صبح کریں گے کہ سورج کی روشنی میں ایکدوسرے کے چہروں کو دیکھ سکیں ہم ماضی میں جانے کا سفر تیزی سے طے کرنے کی کوشش میں ہیں حکومت عوام کو سادگی اور ضروریاتِ زندگی کم سے کم کرنے کی تلقین کرتی ہے لیکن نمائندے گھر اور باہر اے سی کے بغیر ایک لمحہ نہیں گزارتے اس غریب قوم کے امیر نمائندوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ عام آدمی کس طرح شب و روز گزار رہا ہے انکی بلا سے یہ لوگ مریں یا جئیں مر جائیں گے تو معیشت بہتر ہوگی آبادی کم وسائل کثیر ہوں گے پھر ملک ترقی اور خوشحالی کے ذینے تیزی سے طے کرے گا ان کی میٹینگز بھی ٹھنڈے اور پہاڑی علاقوں میں ہوتی ہے نازک مزاجی کا یہ عالم ہے کہ گرمی برداشت نہیں ہوتی ایسے حالات میں قوم کی بہتری اور فلاح و بہبود کےلئے اپنے دماغ کو کیسے بہترین طریقے سے استعمال میں لا سکتے ہیں ماحول اچھا ہوگا تو ان کے دل و دماغ اور مزاج عوام اور صرف عوام کی بہتری اور ترقی کےلئے سوچ سکتے ہیں ورنہ مجبوری ہے عوام کو یہ توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے کہ ان کے دن فکر فاقوں سے نجات پائیں گے ان کے نمائندے بڑے گھروں بڑی گاڑیوں اور زندگی کی بھر پور سہولتوں کے ساتھ اگر نہیں رہیں گے تو عوام کےلئے معاشی بدحالی تو ہوگی ان کے نمائندوں کو چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی سہولت میسر ہونی چاہیے ان کا حق ہے اور عوام کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھول کر نمائندوں کے بارے میں سوچیں اور ہر سہولت فراہم کرنے کےلئے کوشش کریں اس عمل میں کسی قسم کی غفلت یا سست روی کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے ترقی کرنےوالی قوموں کا یہی سوچ اور عمل انہیں کامیابیوں اور کامرانیوں کی طرف لے جاتا ہے پھر وہ اپنے نمائندوں کی شب وروز کی محنت کو سراہتے ہیں معاشرے میں کثریت کیونکہ بیوقوفوں کی ہوتی ہے لہٰذا وہ صحیح طور پر معاشرتی اور معاشی مسائل کو سمجھنے کے قابل نہیں ہو تے سوائے نمائندوں کے جن کو وہ احترام اور عقیدت سے منتخب کرکے ملکی باگ دوڑ حوالے کرتے ہیں کہ تم مزے اڑاو ہم جیسے تیسے وقت کاٹ ہی لیں گے ہماری خیر ہے تمہیں ہر سہولت میسر ہونی چاہیے تاکہ عوام کی سہولت کیلئے اگر ہو سکے تو سوچ سکو ورنہ جو اللہ کی مرضی۔ عوام کے نمائندوں کی طرف اگر نگاہ اٹھ جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ایسا ملک ہے جو غریب عوام کو پالنے میں مصروف ہے ان کے چہرے کی لالیاں ان کی شخصیت کا رعب اور دبدبہ حکمران ہونے کی دلیل پیش کرتے ہیں انکی فیملی کے افراد بھی حکمران طبقے کے نمائندے معلوم ہوتے ہیں نہ فکر فاقہ گرمیاں یورپ میں اور سردیاں پاکستان میں تعلیم بھی ان کے بچے باہر کی یونیورسٹیوں سے حاصل کرتے ہیں ان کی نسلیں بھی حکمرانی کے انداز اپنے بزرگوں سے سیکھ کر وقت کے انتظار میں رہتے ہیں کچھ کی تو خواہشیں اب پوری ہو چکی ہیں اور جو باقی ہیں وقت ان پر بھی جلد مہربان ہو جائے گا عوام کا کام ہے اپنے نمائندے نسل در نسل منتخب کرنااور ان کی پذیرائی میں کوئی کسر نہ چھوڑنا ۔ ان کے نمائندے دولت کو خوش نصیبی سے تعبیر کرتے ہیں وہ آسائشوں میں گرفتار ہیں اپنی نمائشوں کے پجاری ہیں اور طرح طرح کی آلائشوں کی بیماری میں جکڑے ہیں۔ وہ صرف سنچریوں پہ سنچریاں بنا رہے ہیں اور پھر کلین بولڈ ہو کر رخصت ہو جائیں گےاصل زندگی تو اس کے بعد شروع ہوگی جب احتساب ہوگاکیسے کمایا اور کیسے اجاڑا کتنوں کا حق مارا اور کتنوں کا حق دھوکے اور فریب سے خود کھایا جن کے نمائندے بنے ان کے نام پہ ملنے والے فنڈز کو کیسے کھایا پیٹ کادوزخ نہ بھرا چالاکیوں مکاریوں کے جال پھیلاتے پھیلاتے خود ہی بھینٹ چڑھ گئے عوا م کی فلاح کےلئے منصوبہ بندی کرتے کرتے خود مٹی کا ڈھیر بن جائیں گے کوئی نام لیوا نہیں رہتا گھر والے بھی تاریخ وفات یقین سے نہیں بتاتے کہ شاید اگست ےتھی یا اگست جن کےلئے مار دھاڑ سے دولت کمائی انہیں تاریخ وفات بھی یاد نہیں ہوتی کرائے کے لوگوں سے قرآن پڑھواتے ہیں انہیں یہ بھی نہیں ہوتا کہ خود پڑھ کر ثواب پہنچانے کی دعا کریں ہر شے راہی ہے ہر شے سفر میں ہے نامعلوم سفر بے خبر مسافر نا آشنا منزلیں ہم نہیں سوچتے کہ ہم جو حاصل کرتے ہیں اسے آخر چھوڑنا ہوتا ہے خالی ہاتھ آئے اور خالی ہاتھ واپسی درمیانی سفر تو خود فریبی کے سوا کچھ نہیں آنکھوں پر خواہشوں اور تمناوں کی پٹی باند ھ کر دونوں سے دولت سمٹنے کا نام زندگی نہیں امانت کو خیانت میں بدلنے کی کوشش نہیں قابل قدر ہیں وہ لوگ جو دوسروں کے مصائب کو کانٹوں کی طرح چنتے ہیں اور انہیں زندگی کی ضرورتوں کے ساتھ راحتیں میسر کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں یہ مٹھی بھر لوگ ہی بقا کے ضامن ہیں ورنہ سب کچھ برباد ہو جائے قیامت سے پہلے قیامتو ں کا سلسلہ چلتا ہے حقیقتوں کا سامنا کرنے کےلئے مضبوط دل اور دماغ چاہیں انسان کو اپنے اعمال سوچ اور فکر میں صداقت نظر نہ آئے تو وہ کیا انسان ہے جانوروں سے بھی بدتردولت سمیٹنے کی مشین بننے سے بہتر ہے صداقت کے چراغ اپنے لہو سے جلائے جائیں سب کچھ جیسے تیسے اکٹھا کرنے کے بعد اگر اسے چھوڑ ہی جانا ہے تو پھر یہ ساری جدوجہد کیا ہے لاحاصل عمل کی گرفت میں تڑپتی ہوئی لاش کی طرح ۔ گدھ کی بلند پروازی صرف اور صرف مردار کی تلاش میں ہے ہم کیا ہیں کن امور اور مقاصد کے حصول کےلئے کوشاں ہیں سوچنا چاہیئے بے مقصد جدوجہد بدنامیوں کے طوق گلے میں لٹکائے فخر محسوس کرتے ہیں عقل پر پتھر پڑ چکے ہیں ہوس زر نے انسانیت کی معراج سے دھکیل رکھا ہے سوچنے کا مقام ہے ہم کیا کر رہے ہیں۔ ایمانداری سے ملک و قوم کےلئے سوچیں اور کچھ عملی مظاہرہ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے