کالم

ملک دوبارہ لسانیت کی آگ کا متحمل نہیں ہو سکتا

سیاست پر بات کرنے سے قبل یہ بات پوری طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ حکمران عمر ثانی ہیں اور نہ مد مقابل موسی بن نصیر. اس لیے ووٹرز ہوں یا رائٹرز دونوں کو ان کی محبت اور حمایت میں حد سے گزر جانے سے گریز کرنا چاہیے۔البتہ سپورٹرز اس قید سے آزاد. پاکستان مسلم لیگ ن کی شیلف لائف قریب قریب ختم تھی وجوہات کرہشن، ناقص کارکردگی اور عمران خان کی مقبولیت.یہ تو بھلا ہو سیاسی بصیرت سے عاری کپتان کا کہ جن کے پے در پے فیصلوں نے نہ صرف مسلم لیگ ن کے بوڑھے شیر کو توانائی کی نئی رمک عطا کر دی بلکہ مقتدرہ کو بھی اس کی پشت پر لا کھڑا کر دیا پھر ظاہر ہے اس سے شیر نے تگڑا ہونا ہی تھا کہ اسی کے زور پر پونے چار سال بلا چلتا رہا. صاف بات تو یہ ہے کہ مقتدرہ سمیت صاحب فراست اور سیاسی سوجھ بوجھ کا حامل ہر پاکستانی اب پی ٹی آئی کے افکار و نظریات سے خطرہ محسوس کرنے لگا ہے۔فائنل کال کی ناکامی کے بعد ہے در پے جھوٹے پروپیگنڈے سے مجھے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا ہے کہ کہیں کپتان کہ جن کا رول ماڈل شیخ مجیب الرحمن ہے کے …. فی الوقت اس سے آگے کچھ کہنے کی جرات ہے نہ ہمت اور اللہ کرے ذہن میں جنم لینے والے یہ خدشات غلط ثابت ہوں کہ پیشین گوئی، بریکنگ نیوز وغیرہ کے چکر میں ملنے والا کریڈٹ ہزار بار اس ملک کی وحدت اور سلامتی پر نثار۔رہا معاملہ پی ٹی آئی کا تین سو، 400لاشوں کا تو یہ کھلم کھلا ڈیجیٹل دہشت گردی تھی جو سر کے بال گننے کے مترادف کہ جو تادم مرگ نہ گنے جا سکیں اور نہ حتمی اعداد و شمار سامنے۔ڈیجیٹل فتنہ گری کا اگلا ہدف پشتون عوام کے نام پر لسانیت کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش ہے جو دہائیوں پہلے الطاف حسین نے اردو بولنے والوں کے نام پر لگائی تھی۔ریاست اور عوام اس فتنہ کو سر اٹھانے سے قبل ہی دفن کر دیں تو بہتر ہے کہ اب یہ ملک دوبارہ لسانیت کی آگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔کراچی سے لیکر لاہور اور کشمیر کی بلند و بالا چوٹیوں تک کہاں کہاں اخوت اور بھائی چارہ کے مناظر اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھے. بالخصوص پشتون ہر شہر اور قریہ میں بڑے طمطراق سے معاشی سرگرمیوں میں مصروف عمل، لاہور اور کراچی میں کاروبار کرنے والے کئی ایک پشتونوں سے بات ہوئی تو 80 فیصد سے زائد تو پنجاب سندھ اور کشمیر کا ایسا حصہ بن چکے کہ انکی اگلی نسلیں واپس اپنے آبائی صوبہ کو لوٹ جانے سے ہی انکاری ہیں۔اہل کشمیر ہوں یا اہل سندھ و پنجاب ان کے بازو ہمیشہ اپنے ملک کے پشتون بھائیوں کےلئے کھلے رہے۔مگر انتشار پھیلانے والے اس میں شامل نہیں اور نہ ہی اس مذموم مہم کے نام پر دنگا فساد کرنے والوں چاہے وہ کسی بھی قومیت سے ہوں سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے۔کہ قانون کے پوری قوت سے عدم اطلاق اور کمزور نظام انصاف نے ہی تو ہمیشہ ایسے فتنوں کو پنپنے کا موقع دیا۔گزشتہ کچھ عرصہ سے المیہ یہ ہوا کہ نظریات کی جگہ بیانیہ نے لے لی اور اقتدار سے بے دخلی کے بعد بیانیہ بدلا تو اس سے سیاست میں تشدد اور انتہا پسندی کی ایسی لہر اٹھی کہ پی ٹی آئی نے بات چیت، مذاکرات، سیاسی اختلاف رائے اور آداب سب کچھ لپیٹ دیا۔اب بیانیہ بھی اگر کوئی مفکر، مدبر یا سرد و گرم چشیدہ سیاسی لیڈر دے تو بات ججتی تھی یہاں بدقسمتی یہ کہ یہ ہتھیار PTIنے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے ہاتھ دے دیا جیسے بندر کے ہاتھ قینچی، کہ انہوں نے رواداری، برداشت، سچ اور کردار کی جڑیں کاٹ کر اس سیاست کی بنیاد رکھ دی جسے قوم 40 سے 50 سال قبل بھلا چکی۔اب بھی یکطرفہ صحافت کرنےوالوں کو سبق لینا چاہیے۔کہا جاتا ہے کہ سیاست مذاکرات کا کھیل، اس میں جو جیتا وہی سکندر.مگر کوئی فریق دیوار توڑنے کا آرزو مند ہو یا پھلانگنے کا عادی تو بات نہیں بنتی. کم و بیش دو سال کے طویل عرصہ سے …. اور پیاز کھانے کے بعد بانی قائد کی جانب سے حکومت سمیت سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی انکی سیاسی بصیرت کا ثبوت ہی تو ہے مگر لگتا یوں ہے کہ مذاکراتی کمیٹی اتنی ہی بااختیار ہو گی جتنی 2014 کے دھرنے کے دوران بنائی گئی مسلم لیگ ن کی. کہ مذاکراتی عمل میں شریک لیگی قیادت دھرنا قائدین کی کسی بات پر متفق ہو بھی جاتی تو قائد مسلم لیگ اسے اڑا کے رکھ دیتے۔سو پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کا اختیار بھی ڈاکیے جتنا ہی ہو گا۔یہ شاید اگلی احتجاجی کال کےلئے راہ ہموار کرنے کی ایک کوشش ہی ہو سکتی ہے۔یہ بات پی ٹی آئی قیادت پر تو پوری طرح اور کپتان پر بھی شاید کچھ حد تک واضح ہو چکی کہ ٹکروں سے اب دیوار ٹوتنے والی نہیں اور وہ بھی دوہری اور پھلانگنے والی بات بھی اب رہی نہیں۔بار بار کے احتجاج نے پارٹی کارکنان کا بھرکس نکال کے رکھ دیا وہ بے چارے تو ان ضمانتوں تک سے محروم اور لاوارث جبکہ کپتان کی قانونی ٹیم کی سنجیدگی اور مہارت کا پول محترمہ علیمہ خان اور بشریٰ بی بی نے میڈیا کے سامنے کھول دیا۔کپتان کو شاید باوفا ٹیم میسر نہیں یا انکے انتخاب میں سہو ہے۔اب بھی مذاکراتی کمیٹی اگر بااختیار نہ ہو گی اور وہ اپنے سوشل میڈیا کے زیر اثر رہی یا کپتان کو زمینی حقائق پورے طریق سے باور نہ کرا سکی تو انجام پہلے سے ہی معلوم۔ایک اور وجہ باہر بیٹھے اور کچھ ایک یہاں جو پارٹی کو سیاسی راہ پر چلنے دیتے ہیں اور نہ پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت قائم دیکھنا چاہتے ہیں۔میری ذاتی رائے عمران خان کے نظریات نہیں بلکہ انکی مقبولیت کو ملکی استحکام کےلئے مثبت انداز میں بروئے کار لانے کی ہے مگر لگتا ہوں ہے کہ PTI کے اندر نادیدہ ہاتھ میری طرح ہزاروں کی اس خواہش کا کریا کرم کرنے پر تلا ہے۔پاکستان پائندہ باد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے