حکومت نے ملک میں چار سال کےلئے تعلیمی ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے جو ایک انتہائی اچھا اقدام ہوگا کیونکہ کل جب ہم بچے تھے تواس وقت ایک خوشحال پاکستان تھا بے شک پیسے کی کمی تھی لیکن پھر بھی اطمینان تھا گھروں میں سکون تھا اس وقت تعلیم بھی کم تھی اور سکول بھی دور دور تھے کالج اور یونیورسٹی جانا ایک خواب ہوا کرتا تھا خیر وقت گذرا اور ہم بچپن سے جوانی کی دہلیز پر پہنچے تو پاکستان کو لوٹنے والوں نے بھی انتہا کردی اور اب جب ہم جوانی کی دہلیز پار کررہے ہیں تو ہمیں ایک لٹا پٹا پاکستان ملاایسا پاکستانجہاں گھروں کے قریب سکول ہونے کے باوجود تقریبا پونے تین کروڑ بچے سکول نہیں جارہے بلکہ وہ اپنے گھر میں فاقہ کشی سے بچنے کیلئے والدین کا کسی نہ کسی کام میں ہاتھ بٹا رہے ہیں یا پھر کسی ہوٹل ،ورکشاپ اور سٹور میں بطور چھوٹے کے کام کررہے ہیں کل کو جب یہ بچے جوان ہونگے تو اس وقت ہم انہیں کونسا پاکستان دیکر جارہے ہونگے تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے لیکن ہمارے ہاں تو پڑھے لکھے جاہلوں کی بھی کمی نہیں ہے اور جو ہیں ہی جاہل ان سے خیر کی توقع رکھنا اپنے آپ کو دھوکے میں ڈالنے کے مترادف ہے ہمارے سیاستدان اور بیوروکریٹ جو خود کو نمایاں اور منفرد کرنے کے لیے ہر وسائل استعمال کر جاتے ہیں لیکن اپنے مستقبل سے بے خبر بچوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہے وہ تو شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ ان حالات میں بھی بچوں کی تعلیم کے حوالہ سے ایک شخص کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ ہمارے آج کے بچے اچھی تعلیم اور اچھے ذہن کے مالک ہونگے تب ہی پاکستان کسی کنارے لگے گا وہ جب چیف سیکرٹری گلگت بلتستان تھے تو انہوں نے وہاں کے بچوں کےلئے ناقابل فراموش کام کیے اور بڑوں کو بھی سبق دیا سرکاری گاڑیوں پر لکھوا دیا کہ یہ آپکے پیسے سے چلتی ہیں اور اب خو ش قسمتی سے وہی شخص محی الدین وانی پاکستان کے ان بچوں کےلئے بہت کچھ کرنا چاہتا ہے جو کل ہمارا روشن مستقبل بنیں گے انہی کی کوششوں سے وزیر اعظم چار سال کےلئے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگانے جارہے ہیں ویسے تو ہمیں اپنے ہر شعبے میں ہی ایمرجنسی لگا دینی چاہیے لیکن تعلیم کا حال سب سے برا ہے اسی سے آغاز ہوجائے توآنےوالے دور میںبہتری کی گنجائش نکل سکتی ہے پاکستان اس وقت 26.2 ملین سکول نہ جانے والے بچوں (OOSC) اور 62% کی کم شرح خواندگی سے دوچار ہے جبکہ تعلیم کے شعبے پر حکومت کے مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے 1.7 فیصد کے معمولی اخراجات تشویش کا باعث ہیں مختلف علاقوں کے اسکولوں میں بیت الخلا، صاف پانی، اور باو¿نڈری وال جیسی ضروری سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں بہت سے سکول خاص طور پر دیہی علاقوں میں پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں حالیہ تعلیمی شماریات کی رپورٹ برائے 2021-22 نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان میں 39 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میںپنجاب میں 11.73 ملین، سندھ میں 7.63 ملین، خیبر پختونخوا میں 3.63 ملین ، بلوچستان میں 3.13 ملین، اور اسلام آباد میں 0.08 ملین بچے ہیں بچوں میں تعلیم کے مشن کو لیکر چلنے والے سیکرٹری تعلیم محی الدین احمد وانی کا کہنا ہے کہ تعلیم کے شعبے کو بہتر بنانا وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی اولین ترجیح ہے وزارت تعلیم، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر، وزیراعظم اور وزیر تعلیم کی ہدایت کے مطابق ضروری اصلاحات کو نافذ کرنے کےلئے سرگرم عمل ہے کیونکہ تعلیم ایک بنیادی انسانی حق ہے ہنگامی حالات میں پھنسے ہوئے بچوں اور نوجوانوں کےلئے تعلیم کا مطلب نہ صرف سیکھنے کا تسلسل ہے بلکہ یہ معمول کا احساس اور ایک مختلف مستقبل کی کلید بھی فراہم کرتا ہے تعلیم کے ذریعے حاصل کردہ علم، ہنر اور مدد سے نسلیں بحرانوں سے بچ جاتی ہیں اور دنیا کو ایک پائیدار مستقبل کی طرف لے جاتی ہیں یہ خاص طور پر کمزور خاندانوں کےلئے کامیابی کی ضمانت اور کنجی ہے جن میں لڑکیاں، تارکین وطن، مہاجرین اور معذور افراد شامل ہیں اس حوالے سے یونیسکو تعلیم کو بحرانی سیاق و سباق میں ایک فوری اور فوری بنیادی ضرورت سمجھتا ہے جیسے خوراک اور صحت کی خدمات جو انسانی ہمدردی کے ردعمل میں فراہم کی جانی چاہئیں۔ 1950 سے یونیسکو ہنگامی حالات میں تعلیم (EiE) میں مصروف عمل ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہنگامی حالات میں لوگوں کے تعلیم کے حق میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔اس وقت پاکستان سمیت اور بھی بہت سے ممالک ہیں جو تعلیمی ایمرجنسی کی طرف جارہے ہیں اور ان سب کو یونیسکو بھر پور سپورٹ بھی کرتا ہے بحران سے متاثرہ ممالک میں تعلیم کو درپیش کلیدی چیلنجوں میں سے ایک درست، قابل اعتماد اور بروقت اعداد و شمار کی کمی ہے جو کہ موثر تعلیمی ردعمل کو آگے بڑھانے کےلئے ضروری ہے دستیاب اعداد و شمار کو اکثر جمع کرنے اور استعمال کرنے کے ساتھ تقسیم کیا جاتا ہے جو انسانی اور ترقیاتی پروگرامنگ کے درمیان موجودہ غلط فہمیوں کی عکاسی کرتا ہے یونیسکو ادارہ جاتی نظاموں میں بہتر کوآرڈینیشن، معیاری کاری اور انضمام کے ذریعے ایمرجنسیز (EiE) ڈیٹا کی پیداوار، تجزیہ، تقسیم اور استعمال کو بہتر بنانے کےلئے کام کر رہا ہے اس کا مقصد انسانی ہمدردی اور ترقیاتی پروگرامنگ کے درمیان فرق کو ختم کرنا بھی ہے بحران سے پہلے اور بعد میں کوالٹی ڈیٹا تک بہتر مربوط اور بہتر رسائی انتہائی کمزور آبادیوں کی زیادہ شمولیت اور ہنگامی، آفات اور بحران سے متاثرہ آبادیوں کےلئے مساوی، معیاری اور زندگی بھر سیکھنے کی ضروریات کی بہتر فراہمی کا باعث بنتی ہے تعلیمی نظام کی تیاری اور لچک کا امتحان ہنگامی حالات اور بحرانوں میں لیا جاتا ہے۔ 2019 میں بحران سے متاثرہ ممالک میں رہنے والے 127 ملین پرائمری اور سیکنڈری سکول جانے والے بچے اور نوجوان سکول سے باہر تھے جو کہ اسکول سے باہر کی عالمی آبادی کے تقریباً نصف کے برابر ہے یونیسکو تعلیم کو بحرانی سیاق و سباق میں ایک فوری بنیادی ضرورت سمجھتا ہے جیسے خوراک اور صحت کی خدمات پر انسانی ہمدردی کے ردعمل میں فراہم کی جانی چاہئیں۔ آج بحران سے متاثرہ ملک میں رہنے والے بچوں اور نوجوانوں کی عالمی آبادی کا تقریباً نصف ہے جن میں پاکستان سرفہرست ہے اور اس بحران سے ہمیںمحی الدین احمد وانی جیسا درد دل رکھنے والا شخص ہی نکال سکتا ہے ۔