اداریہ کالم

ملک کسی سیاسی عدم استحکام کامتحمل نہیں ہوسکتا

اس وقت ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ گزشتہ حکمرانوں نے اگر عوام کیلئے کچھ کام کیاہوتا تو آج انتخابات کے بعد کی صورتحال اتنی بری نہ ہوتی۔پاکستان کسی بھی قسم کے سیاسی عدم استحکام،انتشار اور افراتفری کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ اس وقت ملک سیاسی بحرانی کیفیت کاشکار ہے جس سے نکلنابہت ضروری ہے کیونکہ سیاسی عدم استحکام سے ملک میں ایک نیابھونچال آئے گا جوملک اس کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ملک میں سیاسی جماعتوں کے مابین رسہ کشی ملک کے لئے شدید نقصان دہ ثابت ہوگی لہٰذا سیاسی لڑای کی بجائے وسیع البنیاد قومی حکومت تشکیل دی جائے اورمعیشت کوتمام سیاسی مفادات پرفوقیت دی جائے اس وقت قوم اورملک کوایک مضبوط معیشت کی ضرورت ہے جوایک پائیدار طویل المدتی وسیع البنیاد قومی حکومت کے بغیرممکن نہیں۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں اورجیتنے والے آزادامیدواروں کوملک کو سیاسی اورمعاشی بحران سے نکالنے کےلئے ملکرکام کرناچاہیے اس وقت ذات مفادات پرقومی مفادات کوترجیح دینے کی ضرورت ہے۔انتخابات میں جیتنے والے اراکین پارلیمنٹ میں جاکرملک کے بہترمفاد میں اپناکرداراداکریں اورکسی بھی احتجاج سے گریز کیاجائے۔گزشتہ روز تحریک انصاف نے بانی چیئرمین کی ہدایت پر وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔گزشتہ روز پی ٹی آئی وفد نے اسد قیصر کی سربراہی میں قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد شیر پا سے ملاقات کی۔قومی وطن پارٹی نے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پا ،سیکرٹری جنرل احمد نواز جدون شال اور دیگر رہنماﺅں نے پی ٹی آئی وفد کا خیر مقدم کیا، ملاقات میں انتخابات سے متعلق امور پر دوطرفہ گفتگو پر تبادلہ خیال کیا گیا۔پی ٹی آئی وفد نے بانی پی ٹی آئی کا پیغام آفتاب احمد خان شیر پا کو پہنچایا ، وفد کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں عام انتخابات میں جس دھاندلی ہوئی چاہتے ہیں آپ ساتھ دیں، آفتاب احمد خان شیر پا نے خیبرپختونخوا میں انتخابات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ قومی وطن پارٹی کے رہنما کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر سیف نے کہا کہ عمران خان کی ہدایت پر پی ٹی آئی وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے گی۔ہم چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر سیاسی جماعتوں سے رابطے کررہے ہیں، بڑے پیمانے پر جن کا حق بنتا ہے انکے نتائج تبدیل کئے گئے، آئندہ آنے والی نسلوں کو ان حالات کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ جماعت اسلامی، جے یو آئی اور محمود خان اچکزئی نے بھی احتجاج کیا ہے ۔قومی وطن پارٹی کے سربراہ سکندر حیات خان نے کہا کہ ہمیں بھی الیکشن کے نتائج پر شدید تحفظات ہیں، تحریک انصاف کی جانب سے کی جانے والی پیش پش پر پارٹی سے مشاورت کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے ۔ شیرافضل مروت نے کہا کہ انتخابی نتائج ماننے کا سوال کہاں سے پیدا ہوگیا؟ الیکشن کے بعد ریٹرننگ افسران نے انتخابات کا حشر خراب کیا ہے۔دوسری جانب رو¿ف حسن نے کہا کہ انتخابات میں ہماری 179 نشستیں ہونی چاہئیں تھیں ہم سے 85 نشستیں چھینی گئیں، 46 نشستوں کا ڈیٹا ہمارے پاس موجود ہے اور بقیہ نشستوں کا ڈیٹا بھی ہم 24گھنٹوں میں مکمل کرلیں گے، ہمارے مسترد کیے گئے ووٹس کی تعداد وکٹری ووٹس سے بھی زیادہ ہے، 2024 پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ دھاندلی شدہ انتخابات تھے۔ اس الیکشن میں 1.25 ملین ووٹ ہمیں صرف کراچی سے مل، کراچی میں اتنی نشستیں ہونے کے باوجود ہماری کوئی کامیابی نہیں ہے، قومی اسمبلی میں دن تین بجے تک ہماری 154 نشستیں تھیں، کے پی کے سے ہم 42 سیٹ پر کامیاب ہوئے لیکن الیکشن کمیشن نے صرف 32 امیدواروں کو کامیاب کیا ۔کئی پولنگ اسٹیشنز سے ہمارے پولنگ ایجنٹس کو نکال دیا گیا،اعدادوشمار سے ہماری قانونی ٹیم کو بھی کافی معاونت ملے گی، ہمارے تمام نتائج کو پریذائیڈنگ افسر اور آر او کو نتیجہ مختلف کر دیا گیا، دھاندلی ہمیشہ ہوتی ہے لیکن اس وقت دھاندلا ہوا جیسے ہی رات ہوئی ہمارے نتائج کو بدل دیا گیا۔ پولنگ اسٹیشن میں لے کر آر او آفس آنے تک دھاندلی کی مثال بنائی گئی، فارم 45 کے مطابق جو نتائج آنے تھے انہیں مکمل طور پر تبدیل کیا گیا، آٹھ فروری کی رات میں ان سے جس حد تک دھاندلی ہو سکی کی گئی، آٹھ فروری کو جو عوام نے ووٹ دیا تھا رات کے اندھیرے میں انہیں تبدیل کر دیا گیا۔الیکشن سے قبل بھی تمام سیکیورٹی کو استعمال کیا گیا، الیکشن کے لئے آزاد امید واروں کو کوئی مہم چلانے نہیں دی گئی، الیکشن سے قبل پارٹی کا نشان لے کے عوام کو مزید مشکل میں ڈال دیا گیا، عوام نے اس کے باوجود تمام امید واروں کے نشان یاد رکھیے اور ووٹ کاسٹ کیا۔ یہ انتخابات جمہوریت پر کھلا حملہ تھے، پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا مگر اسے ہرادیا گیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کو مکمل فتح دلائی گئی جو کہ پانچویں نمبر پر تھی، ہمارے بعد جماعت اسلامی دوسرے نمبر پر تھی مگر وہ بھی کہیں بھی نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی کورکمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ میں کہا گیا کہ عمران خان کو جھوٹے مقدموں میں سزا دینے، بلے کا نشان چھین لینے اور تحریک انصاف کو زبردستی انتخاب سے باہر رکھنے کی شرمناک کوششوں کے بعد الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے نو منتخب اراکینِ پارلیمان کو نہایت مضحکہ خیز تکنیکی بنیادوں پر ڈی سیٹ کرکے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی آخری سازش میں مصروف ہے، کور کمیٹی تحریک انصاف میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کے ذریعے اپنے مینڈیٹ کی توہین عوام قبول کریں گے نہ ہی دستور و جمہوریت کی قبریں کھودنے والوں کو کبھی معاف کریں گے ۔چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے مجرمانہ کردار پر تحریک انصاف کی نہیں، صفِ اول کی سیاسی جماعتیں آوازیں اٹھا رہی ہیں، ان کا کمیشن میں بیٹھنے کا مزید کوئی جواز نہیں، فی الفور مستعفی ہوں، الیکشن کمیشن کی سرپرستی میں عوام کے مینڈیٹ، دستور اور جمہوریت کی کھلی توہین کی راہ روکنا ملک و قوم کے مفاد کیلئے ناگزیر ہے۔پی ٹی آئی وفد نے جماعت اسلامی رہنماﺅں سے ملاقات کی اور دونوں پارٹی کی قائدین نے حالیہ عام الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے مبینہ دھاندلی کیخلاف احتجاج پر اتفاق کیا۔ اسد قیصر نے کہا کہ اس وقت ہمارا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے، الیکشن میں دھاندلی کی اس سے پہلے ایسی مثال نہیں ملتی، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس دھاندلی کےخلاف آواز اٹھانے والی تمام جماعتوں سے ملیں۔ ہم مل بیٹھ کے سوچیں گے کہ اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا، اب فیصلے بند کمروں میں نہیں ہونگے، اس وقت ملک عدم استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے، ہم قانونی جنگ بھی لڑیں گے۔ ہم صرف جمہوریت کو مستحکم کرنے کیلئے اپنی جہدوجہد جاری رکھیں گے، ہم اس دھاندلی کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گے۔ جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہا کہ جماعت اسلامی نے 8 فروری کے فوری بعد اپنے موقف کا اعلان کر دیا تھا، ہم نے اس الیکشن کو مسترد قرار دیتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان کے انتخابات کو ریاستی مداخلت سے آزاد کرانا سیاسی طاقتوں کی ذمہ داری ہے۔ملکی استحکام کیلئے سب کو مل کر کام کرناہوگا۔محاذآرائی کی سیاست کسی کے مفاد میں نہیں ہے ۔ جمہوریت کے تسلسل کو جاری رہنا چاہئے۔ہمیںایسے اقدامات سے گریز کرنا ہوگاکہ جن سے جمہوریت کو نقصان پہنچے ۔
ملک میں مہنگائی کاطوفان
ملک کے ہر چھوٹے، بڑے شہر ، تحصیل ، ضلع ، قصبوں اور دیہاتوں میں اشیا خورو نوش کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ملک میں رواں ماہ کے دوران مسلسل مہنگائی کی شرح میں کمی کا رجحان جاری ہے، اس کے باوجود روں ہفتے 22 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ جاری کردی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک بھر میں گرانی میں کمی آرہی ہے مگر اس کمی کی رفتار بہت کم ہے، حالیہ ہفتے ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں0.78 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح بھی کم ہوکر34.25 فیصد کی سطح پر آگئی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران 22اشیا کی قیمتوں میں اضافہ جبکہ 11کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی اور18اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مستحکم رہیں۔ حالیہ ایک ہفتے کے دوران آلو ،گوشت اور دالوں سمیت کئی اشیا مہنگی ہوئیں ۔مہنگائی کا آسمان سے باتیں کرنے کا محاورہ عملی صورت میں سچ ثابت ہورہا ہے۔ الیکشن کے وقت عوام کو جو سہانے خواب دکھائے گئے تھے، وہ سب چکنا چور ہوگئے بلکہ ان کی بھیانک تعبیر اب سامنے آرہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے