ہم لوگ دنیا اور دنیا داروں سے امیدیں لگا کرنہ صرف اپنا وقت ضائع کرتے ہیں بلکہ اپنی منزل کا نشان بھی بھول جاتے ہیں یہ دنیا وہ ہے جس نے نوح علیہ السلام کا مذاق اڑایا یوسف علیہ السلام کو حقیر قیمت پر بازار میں بیچا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا موسی علیہ السلام کو در بدر کیا اور محمد رسول اللہ ﷺ کو طائف میں پتھر مارے اس لیے ہمیں کیا لگتا ہے یہ دنیا کندھوں پر اٹھائے گی؟ہر گز نہیں اس لیے وقت کو غنیمت جانیں اور اپنی مدد آپ کے تحت کچھ کر جائیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے دنیا بھی اسے یاد رکھتی ہے جو اپنے زور بازوں سے جیت کو گلے لگا کر دنیا والوں کو حیران کردے ارشد ندیم کی جیت تازہ تازہ واقعہ ہے جو اولمپئن بننے سے پہلے تک پاکستان سپورٹس بورڈ کے بوسیدہ سے کمرے میں اچھے مستقبل کے انتظار میں تھا اور پھر اسکی محنت رنگ لائی اور ایک نیا ریکارڈ بنا کر دنیا کو حیران کر ڈالا اسکے بعد ہماری حکومت سے لیکر ایک عام آدمی تک جذباتی ہو گیا یہ دنیا اسے مانتی ہے جو کچھ الگ کرکے دکھائے پھر دولت اور شہرت اسکے قدموں کے نشانات سے اسے تلاش کرکے اس پر فدا ہو جاتی ہیں بلا شبہ اسکی اس تاریخ ساز کامیابی کے پیچھے اسکے والدین کی تربیت،محنت اور دعائیں بھی تھیں اور سب سے بڑھ کر کہ وہ والدین کا تابعدار بیٹا بھی ہے لہٰذا اس دنیا اور دنیا والوں سے امیدیں مت وابستہ کریں یقین کریں اگر آپ دنیا سے بے رغبت ہو جائیں گے تو آپکے آدھے سے زیادہ غم ختم ہو جائیں گے ڈاکٹر سعید احمد صدیقی کی ایک لازوال تحریر پڑھنے کو ملی جسے بار بار پڑھنے کو دل کرتا ہے اس تحریر سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے وہ پڑھنے کے بعد آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں اس تحریر میں ایک پولیس افسر اپنی آپ بیتی سناتا ہے کہ میں 1996 میں لاہور میں ایس ایچ او تھا میرے والد بہت بیمار تھے اور میں نے انہیں سروسزہسپتال لاہور میں داخل کرا دیا سردیوں کی ایک رات میں ڈیوٹی پر تھا اور والدہسپتال میں اکیلے تھے اچانک ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور وہ الٹیاں کرنے لگے میرے خاندان کا کوئی شخص ان کے پاس نہیں تھا وہ دو مریضوں کا کمرہ تھا اور ان کے ساتھ دوسرے بیڈ پر ایک اور مریض داخل تھا اس مریض کا اٹینڈنٹ موجود تھا وہ اٹھا اور اس نے ڈسٹ بن اور تولیہ لیا میرے والد کی مدد کرنے لگاساری رات ابا جی کی الٹیاں صاف کرتا رہا اس نے انہیں قہوہ بھی بنا کر پلایا اور ان کا سر اور بازو بھی دبائے صبح ڈاکٹر آیا تو اس نے اسے میرے والد کی کیفیت بتائی اور اپنے مریض کی مدد میں لگ گیا میں نو بجے صبح وردی پہن کر تیار ہو کر والد سے ملنے اسپتال آ گیااباجی کی طبیعت اس وقت تک بحال ہو چکی تھی مجھے انہوں نے اٹینڈنٹ کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ رات میری اس مولوی نے بڑی خدمت کی میں نے اٹینڈنٹ کی طرف دیکھا وہ ایک درمیانی عمر کا باریش دھان پان سا انسان تھا میں نے مسکرا کر اس کا شکریہ ادا کیا لیکن پھر سوچا اس نے ساری رات میرے والد کی خدمت کی ہے مجھے بھی اس کا خیال کرنا چاہیے میں نے جیب سے پانچ سو روپے نکالے اور اس کے پاس چلا گیا وہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا میں نے اپنا ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اسے پانچ سو روپے پکڑانے لگا وہ کرسی پر کسمسایا لیکن میں نے رعونت بھری آواز میں کہا ”لے مولوی رکھ یہ رقم تیرے کام آئے گی“ وہ نرم آواز میں بولانہیں بھائی نہیں مجھے کسی معاوضے کی ضرورت نہیں میں نے آپ کے والد کی خدمت اللہ کی رضا کےلئے کی تھی میں نے نوٹ زبردستی اس کی جیب میں ڈال دیے اس نے واپس نکالے اور میرے ہاتھ میں پکڑانا شروع کر دیے جبکہ میں اسے کندھے سے دباتا جا رہا تھا اور اصرار کر رہا تھا میں اسے بار بار ”او مولوی چھڈ، ضد نہ کر، رکھ لے، تیرے کام آئیں گے“ کہہ رہا تھا مگر وہ بار بار کہہ رہا تھا، میرے پاس اللہ کا دیا بہت ہے مجھے پیسے نہیں چاہیے میں نے رات دیکھا آپ کے والد اکیلے ہیں اور تکلیف میں ہیں میں فارغ تھا لہٰذا میں اللہ کی رضا کےلئے ان کی خدمت کرتا رہا آپ لوگ بس میرے لیے دعا کردیں وغیرہ وغیرہ لیکن میں باز نہ آیا میں نے فیصلہ کر لیا میں ہر صورت اسے پیسے دے کر رہوں گا۔میں نے اس دھینگا مشتی میں اس سے پوچھا ”مولوی یار تم کرتے کیا ہو؟“ اس نے جواب دیا ”بس ایسے ہی لوگوں کی خدمت کرتا ہوں“ وہ مجھے اپنا کام نہیں بتانا چاہتا تھا میں نے اب اس کا ذریعہ روزگار جاننے کی ضد بھی بنا لی میں اس سے بار بار اس کا کام پوچھنے لگا۔ اس نے تھوڑی دیر ٹالنے کے بعد بتایا ”میں کچہری میں کام کرتا ہوں“ مجھے محسوس ہوا یہ کسی عدالت کا اردلی یا کسی وکیل کا چپڑاسی ہو گا میں نے ایک بار پھر پانچ سو روپے اس کی مٹھی میں دے کر اوپر سے اس کی مٹھی دبا دی اور پھررعونت سے پوچھا ”مولوی تم کچہری میں کیا کرتے ہو؟“اس نے تھوڑی دیر میری طرف دیکھا اور پھر میرے والد کی طرف دیکھا ، لمبی سانس لی اور پھر آہستہ آواز میں بولا ”مجھے اللہ نے انصاف کی ذمے داری دی ہے میں لاہور ہائی کورٹ میں جج ہوں“ مجھے اس کی بات کا یقین نہ آیا میں نے پوچھا ”کیا کہا؟ تم جج ہو!“ اس نے آہستہ آواز میں کہا ”جی ہاں میرا نام جسٹس منیر احمد مغل ہے اور میں لاہور ہائی کورٹ کا جج ہوں“ یہ سن کر میرے ہاتھ سے پانچ سو روپے گر گئے اور میرا وہ ہاتھ جو میں نے پندرہ منٹ سے اس کے کندھے پر رکھا ہوا تھا وہ اس کے کندھے پر ہی منجمد ہو گیامیری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور آواز حلق میں جم گئی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی میں اب کیا کروں؟ جسٹس صاحب نے بڑے پیار سے میرا ہاتھ اپنے کندھے سے اتارا کھڑے ہوئے جھک کر فرش سے پانچ سو روپے اٹھائے میری جیب میں ڈالے اور پھر بڑے پیار سے اپنے مریض کی طرف اشارہ کر کے بتایا یہ میرے والد ہیں اور میں ساری رات ان کی خدمت کرتا ہوں ان کا پاخانہ تک صاف کرتا ہوںمیں نے رات دیکھا آپ کے والد اکیلے ہیں اور ان کی طبیعت زیادہ خراب ہے لہٰذا میں انہیں اپنا والد سمجھ کر ان کی خدمت کرتا رہا اس میں شکریے کی کوئی ضرورت نہیں یہ سن کر میں شرم سے پانی پانی ہو گیا کیونکہ میں صرف ایس ایچ او تھا اور میرے پاس والد کےلئے وقت نہیں تھا میں نے انہیں اکیلاہسپتال میں چھوڑ دیا تھا جبکہ ہائی کورٹ کا جج پوری رات اپنے والد کے ساتھ ساتھ میرے والد کی خدمت بھی کرتا رہااور ان کی الٹیاں بھی صاف کرتا رہا میرے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا میں ان کے قدموں میں جھک گیا مگر اس عظیم شخص نے مجھے اٹھا کر سینے سے لگا لیا وہ پولیس افسر اس کے بعد رونے لگے۔ میں نے ان سے پوچھا ”کیا آپ کی اس کے بعد جسٹس صاحب سے دوبارہ کبھی ملاقات ہوئی؟“ وہ روتی ہوئی آواز میں بولے بے شمار مرتبہ ۔ میں نے زندگی میں ان سے اچھا، دین دار‘ ایمان دار اور نڈر انسان نہیں دیکھا۔ ان کا پورا نام جسٹس ڈاکٹر منیر احمد خان مغل تھا۔ انھوں نے دو پی ایچ ڈی کی تھیں۔ ایک پاکستان سے اور دوسری جامع الازہر مصر سے۔ دوسری پی ایچ ڈی کےلئے انھوں نے باقاعدہ عربی زبان سیکھی تھی اس کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین پر 24 کتابیں لکھی تھیں ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ تیزی سے مقدمات نپٹانے میں مشہور تھے چیف جسٹس جس مقدمے کا فوری فیصلہ چاہتے تھے وہ مقدمہ جسٹس منیر مغل کی عدالت میں لگ جاتا تھا ۔پولیس افسر کا کہنا تھاکہ جسٹس صاحب غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے ایل ایل بی کے بعد مجسٹریٹ بھرتی ہو گئے انہوں نے پوری زندگی اپنے والد کی خدمت خود کی والد زیادہ بیمار ہوئے تو ان کے بیڈ پر پاو¿ں کے قریب گھنٹی کا بٹن لگا دیا اور گھنٹی اپنے کمرے میں رکھ لی والد ضرورت پڑنے پر پاو¿ں سے بٹن دبا دیتے تھے اور وہ بھاگ کر ان کے پاس پہنچ جاتے تھے پولیس افسر نے ان کی عدالت میں جائیداد کے تنازعہ کا کیس کا بھی بتایا کہ ایک طرف سوٹڈ بوٹڈ امیر لوگ کھڑے تھے اور ان کے ساتھ مہنگے وکیل تھے جبکہ دوسری طرف ایک مفلوک الحال بوڑھا کھڑا تھا۔ اس کا وکیل بھی مسکین اور سستا تھا۔ جسٹس صاحب چند سیکنڈز میں معاملہ سمجھ گئے لہٰذا انھوں نے بوڑھے سے پوچھا ”باباجی آپ کیا کرتے ہیں؟ بزرگ نے جواب دیا ”میں پرائمری ٹیچر ہوں“ یہ سن کر جسٹس صاحب اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کہا ماشاءاللہ ہماری عدالت میں آج ایک استاد آئے ہیں لہٰذا یہ استاد کرسی پر بیٹھیں گے اور عدالت ان کے احترام میں کھڑی ہو کر کام کریگی اور اس کے بعد یہی ہوا وہ بوڑھا استاد کرسی پر بیٹھا رہا جبکہ جسٹس صاحب اپنے عملے اور وکلاءکیساتھ کھڑے ہو کر کام کرتے رہے۔ جسٹس صاحب نے سارے مقدمے نپٹانے کے بعد آخر میں بوڑھے استاد کا کیس سنا اور پانچ منٹ میں وہ بھی نپٹا دیا۔یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جنکی دنیا قدر کرتی ہے مگر اس کیلئے اپنے اندر کے انسان کو تکبر،رعونت اور حسد سے پاک کرنا پڑتا ہے پھر جاکر کہیں منزل مسافر کو پکارتی ہے ۔