کالم

مودی حکومت ہندوتوا ایجنڈے پر سرگرم ہے

بھارت کی موجودہ حکومت ہندوتوا ایجنڈے پر سرگرم ہے۔ اسلاموفوبیا اور اور بی جے پی لیڈروں کے حالیہ ریمارکس سے سنگین ماحول پیدا ہو رہا ہے۔بھارت اور پاکستان کے درمیان مضبوط تجارتی تعلقات ہوتے تو شاید دونوں ممالک انتہائی اقدام نہ لیتے۔
بی جے پی رہنماو¿ں کے گستاخانہ بیانات کی مذمت کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ نے انتباہ کیا ہے کہ ہمیں توقع ہے کہ بھارت کی حکومت انسانی حقوق کا احترام کرے گی۔ اس صورت میں امریکا اس سلسلے میں بھارت کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ انسانی وقار، مساوی مواقع او ر آزادی مذہب کا احترام کیا جانا چاہئے۔ کسی بھی جمہوریت میں یہ اقدار بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔
بھارت کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتی جنتا پارٹی(BJP)کو ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریا سیوا سنگھ (RSS) کا سیاسی ونگ تصور کیا جاتا ہے جوہندو قوم پرستی کے احیاءپر مبنی ” ہندوتوا فلاسفی ” پر عمل پیرا ہو کر بھارت کو ایک "ہندو راشٹرا” بنانا چاہتی ہے۔ بھارت کی ہندوانتہا پسند قوتوں نے RSSکے جھنڈے تلے جس انداز میں انتہاپسندی کے فروغ میں اپنا مذموم کردار ادا کیا ہے اس نے کئی سانحات کو جنم دیا ہے۔ بھارت نے انسانیت کے خلاف اپنے ان جرائم کو چھپانے کیلئے ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچایا اور ہیمنت کرکرے کو بھارتی انتہا پسندی کا پردہ فاش کرنے کی پاداش میں ان حملوں کی آڑ میں قتل کردیا جبکہ بھارتی فوج کے حاضر سروس کرنل شری کانت پروہت جیسے ریاستی انتہا پسند اور دہشتگرد عناصر کو کھلی چھوٹ دیدی گئی کہ انکے کسی جرم کی کوئی بازپرس اور سزا نہیںہٹلر اور اسکے فاشسٹ نظریے کو اپنا رول ماڈل بنانیوالے مودی کی انتہا پسندی اور مسلمان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیںرہی۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پائی جانے والی انتہا پسندی برسوں سے حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھ رہی ہے۔ پورے ملک میں بدامنی اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ چند فرقہ پرست عناصر کو اس کا سیکولر نظام بالکل پسند نہیں ہے اور وہ ساری اقلیتوں کو اپنے اندر جذب کرنے یا ان کا صفایا کرنے کے لئے نہایت بے تاب نظر آتے ہیں۔بھارت میں ہندو انتہا پسندی نے بربادی پھیلا رکھی ہے۔ نہ مسلمان محفوظ نہ عیسائی محفوظ نہ سکھ محفوظ اور نہ نچلی ذات کا ہندو محفوظ۔ ہر عام شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ دنیا بھر کے آزاد ماہرین اور میڈیا کی رپوٹیں اس بات کی تصدیق کررہی ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی دنیا کے امن کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ اپنے آپ کو دنیا بھر میں سیکولر ریاست کے طور پرپیش کرنے والے بھارت میں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی میں بھارت دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ جہاں گائے کے گوشت کو لے کر اب تک کئی افراد کو بیدردی اور درندگی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔
مودی کے برسرِاقتدارآتے ہی ایک طرف ہندو انتہا پسندوں کو کھلی آزادی مل گئی کہ وہ بلا روک ٹوک اپنے انتہا پسند اور متشدد ایجنڈے اور فلسفے کو طاقت کے زور پر عوام پر مسلط کردیں ، دوسری طرف ماضی کے تلخ تجربات کے پیشِ نظر مسلمانوں، مسیحیوں اور سکھوں پر مبنی بھارت کی مذہبی اقلیتوںمیں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
بھارت میں تعلیمی نصاب کو بھی ہندوتوا فلاسفی کے مطابق ترتیب دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بھارت کی تاریخ کو بھی ہندوتوا فلاسفی کی روشنی میں از سرِ نو لکھنے کا منصوبہ جاری ہے جس میں بھارت کی اسلامی شناخت اور تشخص کو مجروح کیا جارہا ہے۔ شدھی جیسی تحریکوں کے احیاءکے ذریعے غیر ہندو آبادی کو زبردستی ہندو بنانے کی کاوشیں کی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کیساتھ امتیازی سلوک تو معمول کی بات ہے مگر اس میں بھی بہت شدت آئی کہ بھارت کے سیکولر چہرے کی بدنمائی میں مزید اضافہ ہو ا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر بھی بھارتی انتہا پسندی کی بھینٹ چکا ہے۔ انتہا پسند عناصرکے کشمیریوں پر حملوں میں تیزی آگئی ہے۔ بھارت کی مختلف یونیورسٹیوں میں کشمیری طلباءپر حملے ہورہے ہیں اور انکے حق میں آواز اٹھانے والوں کو بھی حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی مذہبی بنیادوں پر تفریق اور فرقہ واریت کو ہوا دی جارہی ہے تاکہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور آزادی کی تحریک کو کمزور کیا جاسکے۔ کشمیرکے موجودہ حالات و واقعات کسی سے پوشیدہ نہیں۔
جہاں تک پاک بھارت تعلقات اورامن مذاکرات کا تعلق ہے تو ہندو انتہا پسندی کے شکار مودی کا جنگی جنون اور پاکستان دشمنی راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امن مذاکرات کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دو جوہری ریاستیں ہیں اور انکے ناخوشگوار تعلقات اور روایتی دشمنی میں اضافہ خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔
مودی حکومت کے چند سالوں میں مذہبی تفریق اس قدر بڑھ چکی ہے جو پہلے کبھی نہ تھی۔ نیا بھر کے امن پسند ممالک ،تنظیمیں اور دانشور اس بات کا بھر ملا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی صرف اس خطے کیلئے خطرہ نہیں بلکہ اگر اس دہشت گردی اور انتہا پسندی کو نہ روکا گیا تو دنیا کا امن خطرے میں پڑہ سکتا ہے۔ دنیا بھر میں تو انتہا پسند جماعتوں پر پاپندی لگا کر امن کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی انتہا پسند جماعت بر سر اقتدار ہے اور اسی جماعت کے رہنما جنہیں گجرات کے قصائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے