کالم

مکافات ِ عمل

انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اس کا بدلہ اسے ضرور ملتا ہے۔ چاہے وہ اچھا ہو یا بُرا۔ قرآن مجیدمیں اس اصول کو باربار دُہرایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ا س کے اعمال کے مطابق بدلہ دے گا۔سورہ انزال میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”جو کوئی ذرّہ برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرّہ برابر بُرائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا”۔ بعض لوگ اتنے بدقسمت ہوتے ہیں جن کے خمیر میں انسانیت کے خلاف جرائم کی ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہوتی ہے۔ ہٹلر نے اپنی زندگی میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کا بدلہ دیکھ لیا اور اسے خود کشی کرنی پڑی۔ چنگیز خان نے انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرائے اور روئے زمین پر ظلم و ستم کا استعارہ بن گیا۔ اسی طرح اس صدی کا ظالم ترین انسان جسے دُنیا نیتن یاہو کے نام سے حقارت اور نفرت سے پکارتی ہے۔ بہت جلد اپنے بھیانک انجام کو پہنچنے والا ہے۔ آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اس انسانیت کے دشمن کو آج پتہ چلا کہ ہسپتال پر بمباری کرنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ جب ایران سے داغے گئے ایک میزائل سے اسرائیل کے ایک ہسپتال کو نقصان پہنچا اور 200 اسرائیلی زخمی ہوگئے۔ وہ بلبلا اُٹھا اور کہا کہ وہ اقوام متحدہ میں ایران کی شکایت کرے گا کہ وہ ہسپتال پر بمباری کرکے جنگی جرم کر رہا ہے۔ اس کا یہ بیان اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ قرار دیا جائے گا کہ اسرائیل پونے دو سال سے غذہ میں ہسپتالوں، ڈسپنسریوں اور طبی امداد اور خوراک پہنچانے والے بین الاقوامی اداروں اور نجی تنظیموں پر بمباری کر رہا ہے تو اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اِس کے اِس بیان سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اسرائیل جنگ ہا ررہا ہے اور اس کی تباہی نوشتہ دیوار بن رہی ہے۔اسی لئے وہ بار بار امریکہ کی منتیں کر رہا ہے کہ وہ براہِ راست ایران کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے جنگ میں شامل ہو جائے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ امریکہ ایسا نہیں کرے گا۔ امریکہ اسرائیل کا ضرور ساتھ دیتا ہے لیکن ایک حدتک۔ وہ اسلحہ اور ڈالر تو دیتا رہے گا لیکن ایران پر حملہ نہیں کرے گا۔ اس نے غذہ میں بھی یہی پالیسی اپنائی اور وہی پالیسی ایران کے سلسلے میں اپنائے گا۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ اس کے ایران پر براہ ِ راست حملہ کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ایران پہلے ہی انتباہ کر چکا ہے کہ اگر امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو وہ اس خطہ میں واقع امریکی اڈوں کو نشانہ بنائے گا۔ امریکہ شروع ہی سے ایران پر حملہ کرنے کے حق میں نہیں تھا اسی لئے وہ ان سے مذاکرات کر رہاتھا۔ لیکن اسرائیل نے ایک لاڈلے بچے کی طرح ضد کرکے امریکہ سے ایران پر حملہ کرنے کی اجازت لے لی۔ اَب امریکہ بھی پچھتا رہا ہوگا کہ اُس نے اسرائیل کو ایسا کیوں کرنے دیا۔غرور کے نشے میں دھت نیتن یاہو نے ایران پر حملہ کرنے سے پہلے اتنا بھی نہیں سوچا کہ وہ غذہ میں نہتے فلسطینیوں پر پونے دو سال سے اندھا دھند بمباری کرنے کے باوجود 140مربع میل میں آباد 22لاکھ آبادی کو ختم نہیںکر سکا تو وہ چھ لاکھ چھتیس ہزار چار سو (6,36,400) مربع میل پر مشتمل ایران میں آباد نو کروڑ تیس لاکھ (9,30,0000)ایرانیوں کو کیسے شکت دے سکتا ہے؟جبکہ ایرانی غذہ کے مظلوم فلسطینیوں کی طرح نہتے نہیں ہیں اور انہوں نے اسرائیل کے آئرن ڈوم کا بھرم خاک میں ملا دیا ہے۔ ایران کے میزائل تل ابیب اور یروشلم میں تباہی مچا رہے ہیں اور اسرائیل جو اپنی بزدلی میں ثانی نہیں رکھتے، روتے اور چلاتے اسرائیل سے بھاگ رہے ہیں۔اگر ا سرائیل ایران پر دل سال تک مسلسل بمباری بھی کر لے تو ایرا ن کو مکمل طور پر تباہ نہیں کر سکتا لیکن ایران کے میزائل اسرائیل کو دو ہفتہ میں صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔نیتن یاہو نے ہسپتال میں ایران کے میزائلوں کی تباہی دیکھ کر ہرزہ سرائی کی کہ وہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی کو براہِ راست نشانہ بنائے گا کیونکہ انہیں مزید زندہ رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس بدبخت نے استغفراللہ موت اور ز ندگی اپنے ہاتھ میں لینے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ خود اس کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ وہ اسرائیل کی شکست اور اپنے گریٹر اسرائیل بنانے کے خواب کے بھیانک انجام میں تبدیل ہوتے دیکھ کر یا تو خودکشی کرلے گا یا اسے کوئی اسرائیلی ہی اس کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے اسرائیل کی تباہی سے دل برداشتہ ہو کر قتل کر دے گا۔اسرائیل کی شکست کے بعد نیتن یاہو کے ملک سے فرار کے راستے بہت محدود ہوں گے کیونکہ ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) اسے پہلے ہی مفرور مجرم قرار دے چکی ہے اور کوئی بھی رُکن ملک اسے گرفتار کرنے کا پابند ہے۔نیتن یاہو کے لئے فرار کا راستہ صرف امریکہ کی طرف جاتا ہے۔ لیکن اسے یاد رکھنا چاہیئے کہ امریکہ کو عام طور پر اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خاص طور پر شکست خوردہ لوگ پسند نہیں۔ 1979ء کے ایرانی انقلاب کے بعد شاہ ایران رضاء شاہ پہلوی کو امریکہ نے پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے