مکرمی!پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے دن بدن اشیائے خورد و نوش اور تمام بنیادی ضرورت کی اشیاءمہنگی ہوتی جا رہی ہیں ۔ اس سے قبل بھی حکومتوں نے کئی کوششیں کیں کہ مہنگائی کو کسی طرح کنٹرول کیا جائے ۔ کئی کمیٹیاں بنیں ، کئی جائزے ہوئے ، کئی رپورٹیں پیش ہوئیں لیکن اس کا کوئی اثر مہنگائی پر نہ پڑااور مہنگائی جوں کی توں رہی بلکہ دن بدن اس میں اضافہ ہوتا گیا اور عوام کےلئے مشکلات پیدا ہوتی چلی گئیں۔ حکومت جس قدر بھی مہنگائی کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ ایک دلدل ثابت ہوتی ہے کہ جس طرح اس میں سے نکلنے کی کوشش کرنے والااندر دھنستا چلا جاتا ہے ، اسی طرح حکومت جتنا مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہے اتنا ہی اس کے اندر دھنستی چلی جاتی ہے اور نکلنے کا کوئی راستہ بظاہر نظر نہیں آرہا۔ اصل مسئلہ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنا بہت ضروری ہے اور ان کی شرائط میں سب سے بڑی شرط یہ ہوتی ہے کہ حکومت زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرے آئی ایم ایف جب کسی ملک کو قرضہ دیتا ہے تو ایسے ہی نہیں منہ اٹھا کر قرضہ دے دیتا بلکہ وہ پوری طرح جائزہ لیتا ہے تحقیق کرتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ آیا یہ ملک قرض واپس کرنے کے قابل بھی ہے یا نہیں ۔ اگر وہ ملک مستقبل قریب میں قرض واپس کرنے کے قابل ہو تب تو اسے باآسانی قرضہ مل جاتا ہے اگر وہ واپس کرنے کے قابل نہ ہو تو پھر اس کو قرض نہیں دیا جاتا یا اگر دیا بھی جاتا ہے تو اس کو کڑی شرائط پر قرضہ دیا جاتا ہے اور اسے اس قابل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ مستقبل قریب میں آئی ایم ایف کا قرض لوٹا سکے۔جن ممالک کی معیشتیں کمزور ہوتی ہیں آئی ایم ایف سب سے پہلے انہیں زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کر کے اپنا خزانہ بھرنے کےلئے کہتا ہے ، خزانہ عوامی ٹیکسوں سے بھرتا ہے اور ٹیکس کیسے جمع ہوتا ہے ظاہر ہے کہ عوام پر ضرورت کی اشیاءمہنگی کر کے ٹیکس لگایا جاتا ہے جب ٹیکس لگایا جاتا ہے تو مہنگائی خود بخود بڑھ جاتی ہے ۔ پاکستان کو بھی جب آئی ایم ایف نے قرض دیا تو ملکی خزانہ بھرنے کےلئے عوام پر بے تحاشہ ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کا شرط عائد کی جسے حکومت نے من و عن تسلیم کر لیا اور اس کو پورا کرنے کےلئے کمر کس لی۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے بعد مہنگائی کا ایک طوفان آگیا اور ہر چیز پر ٹیکس لگنے لگے اور تمام بنیادی ضرورت کی اشیاءعوام کی پہنچ سے باہر ہوتی چلی گئیں ، آج یہ حالت ہے کہ غریب لوگ گھر کا ماہانہ خرچ پورا کرنے سے بھی عاجز آچکے ہیں۔ ہماری حکومتیں چند عارضی اقدامات کرتی ہیں جو انتہائی غیر مو¿ثرثابت ہوتے ہیں ، جن سے حقیقی معنوں میں مہنگائی کو کم کیا جا سکتا ہے اور معیشت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔اس کےلئے حکومت کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے اخراجات کم کرے ، حکومت ، وزراءاور سرکاری افسران کے خرچے کم سے کم ہونے چاہیے ان کی تمام مراعات ختم کر کے صرف تنخواہ پر لانا چاہیے کیونکہ جو صرف تنخواہ پر کام کرتا ہے اسے تو ایسی کوئی مراعت نہیں ملتیں، ماہانہ 20 ، 30 ہزار روپے کمانے والا شخص اپنے جیب سے پٹرول خریدتا ہے ، اپنے خرچ پر سواری کا انتظام کرتا ہے ، بجلی ،گیس کے بل اپنی جیب سے ادا کرتا ہے جبکہ وزراءاور سرکاری افسران جو لاکھوں روپے مہینے کی تنخواہیں وصو ل کرتے ہیں انہیں مفت پٹرول دیا جاتا ہے ، مفت گاڑیاں دی جاتی ہیں مفت بجلی اور دیگر کئی طرح کی مراعات دی جاتی ہیں ،جو غریب عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ سب سے پہلے تو اسے ختم کرنا چاہیے اس کے بعد ایسے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیںجن کے ذریعے سے ملکی معیشت مضبوط ہو ، ہماری برآمدات میں اضافہ ہو اور درآمدات کم ہوں، اس کےلئے ملک میں صنعتیں قائم کی جائیں تاکہ ہمارے ملک کی پیداوار بڑھے اور ہماری برآمدات میں اضافہ ہو۔ اس کے علاوہ خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ دنیا میں معاشی بنیاد وں پر بلاکس بن رہے ہیں، اب مذہب ، زبان اوررنگ ونسل وغیرہ کو پس پشت ڈال کر صرف معاشی مفادات کےلئے ملکوں کے ساتھ تعلقات قائم ہو رہے اور نئے بلاک تشکیل پا رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی خطے کے ممالک پر نظر رکھتے ہوئے ان کے ساتھ مقامی کرنسی میں یا سامان کے بدلے سامان کی تجارت کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دینی چاہیے اور انہیں یہاں پر سپیشل انڈسٹریل زون میں جگہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مکمل سیکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرانی چاہیے ۔ یہ وہ اقدامات ہوں گے جن کے ذریعے سے ملکی معیشت مضبوط ہوگی اور مہنگائی خود بخود کم ہوتی چلی جائے گی۔
ضیاءالرحمن ضیائ(اسلام آباد)
اداریہ
کالم
مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مو¿ثر اقدامات کی ضرورت
- by web desk
- اکتوبر 8, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 401 Views
- 1 سال ago