ڈاکٹروں کے جھرمٹ میں گزری ہوئی وہ شام بھی کیا ہی رنگین تھی، اور وہ بھی ماہرِ امراضِ قلب پروفیسر ڈاکٹر اسرار الحق کی معیت میں۔ نام بھاری بھرکم، مگر شخصیت اتنی ہی ہلکی پھلکی اور شگفتہ جیسے گرمیوں کی شام میں چلتی ہوئی ٹھنڈی ہوا۔بظاہر اتنے شگفتہ نظر نہیں آتے، مگر چہرے پر پھیلی مسکراہٹ، آنکھوں کی نرم چمک اور بے ساختہ قہقہے صاف بتاتے ہیں کہ ان کا شباب بھی کم رنگین نہ گزرا ہوگا۔ چھ برس ملکہ کی نگری میں رہے لیکن مستقل ٹھکانہ ملبورن ہی ٹھہرا۔ وہ نبض شناس ہیں، مگر وہ دور گزر چکا جب انگلیاں کلائی پر رکھ کر دھڑکن جانچی جاتی تھی۔ اب الیکٹرانک مشینیں ہی فیصلے سناتی ہیں، لیکن ڈاکٹر اسرار تو چہرے کی ہلکی رنگت، آنکھ کی لرزش اور سانس کی بے ترتیبی سے بتا دیتے ہیں کہ نبض کیسی ہے کمزور، بے ربط یا تیز رفتار۔ شہر بھر میں ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ یہ صرف دل جوڑتے نہیں، اکثر اسے صاف بھی کر دیتے ہیں۔انہوں نے اپنے دل کو وقت کی گواہی کے ساتھ ہارٹ آف ملبورن کے سپرد کر رکھا ہے۔ یہ سٹیٹ آف دی آرٹ مرکز شہر کے تین بڑے امراضِ قلب کے اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ دل کا ہر داغ اور ہر دراڑ، چاہے چیرپھاڑ کی صورت میں ہو یا کسی پرزے کی تبدیلی کی شکل میں سب اسی کارخانہ دل میں مرمت ہوتا ہے۔ اس مشن میں دو درجن سے زیادہ ماہرِ قلب اور بڑا عملہ ان کے مضبوط ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ساتھ چلتا ہے۔۔وہ وطن پرست ہیں اور آسٹریلیا میں آنے والے پاکستانیوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے پرعزم ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ نئی نسل نجی شعبوں میں آئے، نام پیدا کرے اور بلند اہداف مقرر کر کے ان تک پہنچیجیسے وہ خود پہنچے۔لیکن بات کہاں سے کہاں جا نکلی۔ اصل قصہ تو گزشتہ شام کا تھا شہر کے جنوبی علاقے Dandenong کے ایک ریسٹورنٹ کا، جہاں ہنستا بستا میلہ لگا تھا۔ڈاکٹر یوسف ہارون، ڈاکٹر ظفر اقبال ظفر، ڈاکٹر بلال خواجہ کیا کیا نام لوں، ہر شخصیت اپنی مثال تھی، اور میں خاکسار بھی ان رنگوں میں پوری طرح رچا بسا تھا۔ ہال کے باہر موسم بہار کے جھونکے مہک بکھیر رہے تھے اور ہال کے اندر قہقہوں، مسکراہٹوں اور ماضی کے جھروکوں میں جھانکتی یادوں نے الگ ہی سماں باندھ رکھا تھا۔ سیاست کے بخیئے ادھیڑنے کی کوششیں بھی ہوئیں مگر میں نے دامن بچانے ہی میں عافیت جانی۔محفل کے اختتام پر جب ڈاکٹر ظفر اقبال ظفر نے احمد فراز کی غزل "رنجش ہی سہی” چھیڑی تو محفل پر ایک سناٹا سا اتر آیا۔ یہ غزل مہدی حسن کی آواز سے جاوداں ہوئی تھی۔ جوابا ڈاکٹر بلال خواجہ نے پوری لاہوری لے میں گیت سنا کر ثابت کر دیا کہ لاہور کے بیٹے اپنی مٹی کی خوشبو کبھی نہیں بھولتے اور آج بھی محبت سے لاوڑ ہی پکارتے ہیں۔گفتگو کا رخ آخر کار وطن کی طرف ہی مڑ گیا۔ سب محبِ وطن اہلِ دانش کے ذہنوں میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا کیا ہمارے ملک میں نظام بدلے گا؟ اگر بدلے گا تو کب اور کیسے؟ کیا کوئی عزم کا پرچم اٹھائے گا؟ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہ تھا، مگر فکر کی دھنک سب کے چہروں پر نمایاں تھی۔ سب کا اتفاق تھا کہ محض دعاں یا نیک تمناں سے مسائل حل نہیں ہوتے عمل درکار ہے۔ پاکستان کا المیہ یہ نہیں کہ لوگ نظام کو نہیں سمجھتے، مسئلہ یہ ہے کہ وہ نظام چاہتے ہی نہیں۔ معاشرہ استحقاقی ہو چکا ہے قانون سب پر لاگو ہونا چاہیے مگر کچھ لوگوں پر نہیں۔ قوانین وقتی فائدے کے لیے گھڑے جاتے ہیں اور بنانے والا ہی سب سے پہلا مستفید ہوتا ہے۔محفل لطائف، گپ شپ، سیاست اور موسیقی کی لہروں میں بہتی رہی۔ ڈنر بھی لذیذ تھا اور احباب کی اشتہا بھی کم نہ تھی، سو دسترخوان کے ساتھ انصاف خوب ہوا۔ شام ڈھلتی گئی، اور جب ریسٹورنٹ والے نے چراغ گل کرنے کا اشارہ دیا تو ہم سب اپنے اپنے ٹھکانوں کی راہ چل دییاس وعدے کے ساتھ کہ اگلی نشست ڈاکٹر ظفر اقبال ظفر کے نام ہوگی۔آخر میں ڈاکٹر اسرار نے مسکراتے ہوئے کہا
"نثار صاحب، یہ شام صرف میری کہاں تھی، یہ تو آپ سب دوستوں کے نام تھی۔”
اور میں دل ہی دل میں سوچتا رہا:
دل کے ڈاکٹر تو بہت ہوتے ہیں، مگر دل رکھنے والے ڈاکٹر بہت کم۔
کالم
میلبورن میں نبض شناسوں کے ساتھ ایک شام
- by web desk
- دسمبر 2, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 14 Views
- 2 گھنٹے ago

