کالم

میں نہ مانوں کی پالیسی

اتحاد قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں مجموعی طور پر77نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی نشستوں میں نہ صرف اتنا ہی اضافہ ہو جائے گا بلکہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں سب سے بڑی جماعت کا درجہ بھی اسے مل جائے گا،انتخابات کے بعد حکمران اتحاد قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کا حامل تھا کیونکہ اس کے مجموعی اراکین کی تعداد227سے زائد تھی جبکہ دو تہائی اکثریت کےلئے224نشستیں درکار ہوتی ہیں،قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن سب سے بڑی جماعت تھی جسکے اراکین تعداد123، پیپلز پارٹی 73اراکین کے ساتھ دوسری بڑی جماعت اور تحریک انصاف92اراکین کے ساتھ تیسری بڑی جماعت سمجھی جاتی تھی،سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اب صورتحال بدل جائے گی اور قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کی22نشستیں تحریک انصاف کو مل جائیں گی جس کے بعد تحریک انصاف قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن جائے گی،قبل ازیں قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے پاس 92نشستیں تھی جو اب بڑھ کر114تک پہنچ جائیں گی جبکہ مسلم لیگ کے پاس108 نشستیں اور پیپلز پارٹی کے پاس68نشستیں رہ جائیں گی،اس طرح حکمران اتحاد قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کھو بیٹھے گا، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد ی جماعتوں کے اراکین کی مجموعی تعداد 208 جبکہ اپوزیشن میں موجود جماعتوں کے اراکین کی تعداد 128 ہوجائے گی۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ صوبائی اسمبلیوں کی ہیت میں بھی بدلاﺅ لائے گا،اور سینٹ میں بھی اس کے واضح اثرات مرتب ہوں گے،پنجاب میں تحریک انصاف کو مجموعی طور پر27مخصوص نشستیں ملیں گی جن میں خواتین کی24اور غیر مسلموں کی3نشستیں شامل ہیں،اسی طرح خیبر پختونخواہ اسمبلی میں25اور سندھ اسمبلی میں3نشستیں بھی تحریک انصاف کے حصے میں آئیں گی،قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں آنے والے ان بدلاﺅ کا براہ راست اثر سینٹ پر بھی پڑے گا جہاں 9مزید نشستیں تحریک انصاف کو ملنے کے امکانات وضح ہو چکے ہیں،سینٹ انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی سینٹ میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر موجود تھی جس کے سینٹرز کی تعداد24تھی جبکہ تحریک انصاف کے سینٹرز کی تعداد 20 تھی،موجودہ صورتحال کے مطابق اب سینٹ میں تحریک انصاف29نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن جائے گی،اس سے قبل الیکشن کمیشن اور پھر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نواز کو 14، پاکستان پیپلز پارٹی کو 5، جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 3 اضافی نشستیں ملی تھیں،خیبر پختونخوا اسمبلی میں 21 خواتین اور 4 اقلیتی مخصوص نشستیں ہیں جن میں سے جے یو آئی (ف) کو 10، مسلم لیگ (ن) کو 7، پیپلز پارٹی کو 7 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کو 1 اضافی نشست ملی تھی،پنجاب اسمبلی میں 24 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 3 اقلیتی نشستیں معطل ہیں، جن میں سے ن لیگ کو 23، پیپلز پارٹی کو 2، پی ایم ایل (ق) اور استحکامِ پاکستان پارٹی کو ایک ایک اضافی نشست ملی تھی،سندھ اسمبلی سے 2 خواتین کی مخصوص نشستیں اور ایک اقلیتی نشست معطل ہیں، ان میں سے پیپلز پارٹی کو دو اور ایم کیو ایم کو ایک مخصوص نشست ملی تھی،سپریم کورٹ کے فیصلے سے مذکورہ بالا77نشستیں واپس لیکر تحریک انصاف کو دیدی گئی ہیں اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا گیا ہے۔
حالیہ صورتحال سے ملکی سیاست کا ماحول مزید کشیدہ ہوگا اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تلخی میں اضافہ ہو گا،نشستوں کی اس الٹ پلٹ سے سیاسی تناﺅ بڑھنے کے خدشات ہیں اور ملک میں ایک نئی محاذآرائی پیدا ہو جائے گی،تحریک انصاف کے موقف میں بھی شدت آنے کے واضح امکانات دکھائی دے رہے ہیں اور ان کی جانب سے انتخابات پر اٹھائے جانے والے سوالات بھی پذیرائی حاصل کریں گے،چونکہ حکمران اتحاد کی پوزیشن اس فیصلے کے بعد کمزوری کی جانب مائل ہے اس لئے ان کی جانب سے اس فیصلے پر تنقید دیکھنے میں آ رہی ہے،حکمران اتحاد ہو یا حزب اختلاف دونوں اپنے موقف کو ہی بیان کریں گے اور اپنے مفادات کےلئے ہی کوشاں رہیں گے لیکن یہاں سب سے بڑا سوال الیکشن کمیشن کے سامنے کھڑا ہے،سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ماورائے آئین قرار دیا گیا ہے،تحریک انصاف کی جانب سے بھی الیکشن کمیشن کے خلاف سخت تنقید دیکھنے میں آ رہی ہے،اس صورتحال میں چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کا اپنے عہدوں پر برقرار رہنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہے،ضرورت تو اس امر کی تھی کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد یہ ارباب اختیار اپنے اخلاقی فرض کو سمجھتے ہوئے اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جاتے مگر اس کے متضاد الیکشن کمیشن نے اعلامیہ جاری کرکے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کا راستہ اپنایا ہے،آئینی اداروں کے مابین یہ صورتحال کسی صورت بھی ملکی مفاد میں نہیںہے،آئینی اداروں کا فرض ہے کہ وہ آئینی و قانونی طرز عمل اختیار کریں،میں نہ مانوں کی پالیسی نے ملک کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے اور اب ملک اس کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے