اداریہ کالم

نئی حکومت درپیش چیلنجز سے کیسے نمٹے گی

انتخابات کے تحت بننے والی حکومت کو آئندہ ماہ و سال میں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا،انتخابی مرحلے کے بعد جہاں سیاست دان ملک کے طول و عرض میں اگلی حکومت سازی کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں، وہیں معاشی ماہرین اس بات کےلئے فکر مند ہیں کہ نئی حکومت معاشی چیلنجز سے کس طرح نبردآزما ہوگی۔ معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ جان لیوا قسم کے معاشی ومالی مسائل کو حل کرنے کےلئے نئی حکومت کو سخت اقدامات تو کرنا پڑیں گے لیکن اس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑتا ہے جسے جسم جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ 1980 کے بعد سے اب تک غریب عوام کو دی جانے والی کئی بنیادی سبسڈیز کو ختم کر دیا گیاہے، جسکی وجہ سے مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ ملکی قرضے جو 70کی دہائی میں 10ارب ڈالرز بھی نہیں تھے، وہ اب 130ارب ڈالرز سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔قرضوں کی ادائیگی، خسارے میں چلنے والے قومی ادارے اورآئی پی پیز کو پیسوں کی ادائیگی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ ہیں معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومت کےلئے سب سے بڑا امتحان مالی نظم و ضبط پیدا کرنا ہوگا۔ اخرجات اور آمدن میںپانچ ٹریلین روپے کا گیب ہے۔نئی حکومت کو گیپ کا چیلنج در پیش ہو گا۔ پاکستان میں قرضوں کا حجم ہر سال بڑھتا ہی جا رہا ہے۔برسوں پہلے سرکاری اداروں کو بیچ کر قرض ادا کرنے کی پالیسی بنائی گئی اوے کہا گیا کہ اداروں پر خرچ ہونے والے پیسے کو عوامی فلاح پر لگایا جائے گا لیکن آج ملک ی بیشتر آبادی کے پاس پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، ڈھائی کروڑ کے قریب بچے سکول سے باہر ہیں،اور چھ کروڑ سے زیادہ افراد سطح غربت پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت قرضوں کی ادائیگی اور دوسرے اخراجات کے بعد حکومت کے پاس عوامی فلاح کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدے کے نتیجے میں اب حکومت کے ہاتھ پاو¿ں بندھے ہوئے ہیں۔جس کا اثر عام آدمی پر پڑرہا ہے۔بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان سے بھی آگے نکتی جا رہی ہیں،ابھی موسم سرد ہے۔یوں موسم گرما نے پاو¿ں جمانا شروع کئے غیض و غضب کا ایک نیا لاوہ پھٹ سکتا ہے،جسے شاید نیا حکومتی نظام نہ سنبھال سکے۔اسی طرح ماہرین کایہ بھی کہنا ہے کہ انڈر انوائسنگ کو روکنا حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا جس سے خزانے کو بہت نقصان ہوتا ہے ۔ٹیکس نیٹ بڑھانا بھی نئی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔ سرکاری ادارے خود ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں کہ ٹیکس چوری کیا جائے تو نئی حکومت کے لیے چیلنج ہوگا کہ کس طرح وہ ایف بی آر میں اصلاحات کرتی ہے اور ٹیکس نیٹ بڑھاتی ہے۔آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا بھی ایک کڑا چیلنج ہوہے۔اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرائط جیسے کہ توانانی کی قیمتیں بڑھانے پر عمل نہیں کرے گی، تو آئی ایم ایف سے اگلی قسط ملنا مشکل ہو گا ۔ آئی ایم ایف کے جائزہ مشن رواں ماہ کے آخر تک اسلام آباد کا دورہ کر سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کا آئندہ مشن 3 ارب ڈالرز کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی تکمیل کے لیے کافی اہم سمجھا جارہا ہے جو 12 اپریل 2024کو ختم ہونے والا ہے۔ دوسری طرف جنوری میں 26 فیصد اضافے کے باوجود رواں مالی سال 2024 کے ابتدائی 7ماہ کے دوران پاکستان کو موصول ترسیلات زر 3فیصد تنزلی کے بعد 15 ارب 83 کروڑ 23 لاکھ ڈالرز ریکارڈ کی گئیں۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے اسی مہینے میں ایک ارب 90 کروڑ ڈالرز رہی تھیں۔ اس لئے معاشی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بھی حکومت برسر اقتدار آئے اسکے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ کس طرح کے خلاف اقدامات کرتی ہے۔آنے والی حکومت کو ایک ایسے وزیر خزانہ کی ضرورت ہو گی جو معیشت کی سوچ بوجھ رکھتا ہو اور اصلاحات کر سکے۔
غربت کی شرح میں خوفناک اضافہ
پاکستان میں گزشتہ برسوں کے دوران غربت میں اضافہ ہوا اور کورونا وائرس کی وباءاور 2022میں آنیوالے سیلاب کے بعد سے غربت کی شرح بڑھ کر 41فیصد پر پہنچ گئی ، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کے شکار افراد کی تعداد 12کروڑ 66لاکھ ہے ، ایک کروڑ 20لاکھ سے زائد افراد بے روزگاری کا شکارہیں ، مشکل اقتصادی صورتحال، بگڑتی ہوئی لیبرمارکیٹ ، ترسیلات زر کی تنزلی ، اشیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتیں ، کورونا وائر س، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے گھریلواخراجات میں ا ضافہ ہوا۔ عالمی بنک کے مطابق اس ان تمام عوامل کے باعث غربت کی شرح میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے جو کہ گزشتہ دو عشروں میں کم ہو گئی تھی ۔ درحقیقت ملک میں بے روزگاری اور غربت کی بڑی وجہ ہی وسائل مہیا کئے بغیر بے تحاشا حکومتی ٹیکس اور جان لیوا مہنگائی ہے۔ لوگ تعلیم ،صحت اور متوازن خوراک ، لباس تک سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ بہتر منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث غربت کی شرح میں نہایت سرعت کے ساتھ اضافہ دیکھا جا رہا ہے، اس سلسلے میں بروقت اقدامات نہ ہونے سے مسائل انتہائی گھمبیر ہو سکتے ہیں۔ ڈوبتی ہوئی معیشت، ڈالر کی اونچی اڑان، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو لگام ڈالنے میں ناکامی جیسے عوامل غربت کی بھٹی کو ایندھن فراہم کرنے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ سماجی تحفظ کے ناکارہ نظام، بڑھتے ہوئے بے سمت اور غیر ضروری حکومتی اخراجات، غیر مساوی ٹیکس نظام، غیر پیداواری معیشت، کم پیداوار دینے والے زرعی سیکٹر،مہنگی توانائی اور اس کے باعث قرضوں کے بڑھتے بوجھ اور اشرافیہ کی گرفت میں کام کرنے والے غیر موثر پبلک سیکٹر جیسے عوامل شامل ہیں۔2022 کے تباہ کن سیلاب سمیت موسمیاتی تبدیلی نے بھی پاکستان کو بے حد متاثر کیا ہے۔ملک میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح میں میں تیزی سے اضافہ ہواہے۔ عوام کو صحت، تعلیم، صفائی ستھرائی جیسی بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں اور انہیں غذائی کمی کا بھی سامنا ہے۔ شہروں میں مقیم گھرانوں میں گنجائش سے زائد لوگ رہنے پر مجبور ہیں۔بدترین حکمرانی کے نتائج نے حالات اس قدر خراب کردیے ہیں کہ اب محض زبانی دعووں سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کےلئے عملی اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں۔ ملک کا معاشی مستقبل فی الحال تو داﺅپر نظر آتا ہے کیونکہ معیشت مسلسل سکڑ رہی ہے اور اسے ٹھیک کرنے کےلئے کافی وقت درکار ہوگا۔ موجودہ معاشی حالات میں افراط زریعنی مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے قوت خرید میں کمی اور بے روزگاری بڑھے گی جس کے باعث غربت میں بھی اضافہ ہوگا ۔ اگر ملک واقعی ان مشکل حالات اور بڑھتی ہوئی غربت سے نکلنا چاہتا ہے تو حکومت کو ٹیکس دہندگان کی تعداد کو بڑھانا ہوگا۔پاکستان میں عوام کو خط غربت سے بچانے کےلئے حکومت کو کارپوریٹ سیکٹر پر قوانین لاگو کرنے ہوں گے جو مزدوروں اور ملازمین کو کم اجرت پر رکھ کر ان کا استحصال کرتے ہیں کیونکہ غربت کی شرح میں اضافے کی وجوہات ایک خاندان کا تین نسلوں کو پالنا، گھر میں پانچ سے دس افراد میں صرف ایک شخص کی کمائی اور قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ نوجوانوں کو روزگار، صحت عامہ سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی بہتر بنانے سے غربت میں کمی ہوسکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس نیٹ کو غریبوں سے نکال کر امیروں تک لے جانا چاہیے کیونکہ روزمرہ اشیائے ضروریہ پر جی ایس ٹی کے ذریعے اربوں روپے تو اکٹھے کیے جا رہے مگر جتنا ریونیو اکٹھا کیا جاتا ہے اس کا نصف بھی عام آدمی پر نہیں لگتا نظر آ تا۔ امیر اور غریب کے درمیان اس گہرے خلاءکو پر کرنے کےلئے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو خدانخواستہ ہم کسی پسماندہ افریقی ریاست کی صف میں کھڑے نظر آئیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے