کالم

نئے چیف جسٹس سے نئی توقعات(1)

چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے دور میں متنازعہ عدالتی فیصلوں کی ایک لمبی فہرست لے کر ایوان عدل سے رخصت ہوچکے ہیں اپنے پیش روﺅں کی طرح وہ بھی اس بات پر انتہائی مطمئن تھے کہ انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے-سابق چیف جسٹس نے نظام انصاف کی بہتری کے لئے کیا کیا اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی لیکن ایک بات طے ہے کہ عمر عطا بندیال پاکستان کی تاریخ کے ایک ناکام ترین چیف جسٹس تھے ان کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے بلا شبہ ان کے دور میں عدالت عظمی پر عوام کے اعتماد میں کمی آئی ہے- سیاسی نوعیت کے فیصلے کس قدر جانبداری سے کئے، کیسے ہم خیال ججوں کو مرضی کے فیصلے کرانے کیلئے استعمال کیا، کس طرح سپریم کورٹ کے اندر تقسیم پیدا کی گئی سب کچھ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے-معاشرے کے ہر فرد کو رنگ ونسل’ لسانی’ گروہی یا کسی علاقائی امتیاز کے بغیر صاف وشفاف انصاف کی فراہمی کے حوالے سے صدیوں پہلے ریاست کے قیام اور معاشرے کی تشکیل کے بعد ماہرین عمرانیات نے دو ٹوک انداز میں یہ واضح کردیا تھا کہ انصاف کی فراہمی ریاست کی اولین اور بنیادی ذمہ داری ہے اس کے بغیر ریاست کا قیام اور معاشرے کی تشکیل ایک بے معنی امر ہوکر ہ جائے گی- دنیا کے ہر مذہب میں انصاف کا نظام موجود ہے لیکن اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے عدالت کے روایتی نظام کو توڑ دیا، جس کا ماٹو ہے کہ عدالت کے لئے عمارت کی ضرورت نہیں، بس مدعی آئے ملزم کو بلایا جائے دونوں کے بیانات سنے جائیں’ گواہیاں پیش کی جائیں اور اس کے بعد حالات و واقعات اور گواہوں کے بیان کی روشنی میں اللہ کے قانون کے مطابق مقدمہ کا فیصلہ کردیا جائے-ملزم کون ہے’ دعویٰ کس نے دائر کیا ہے یہ سوچنے اور دیکھنے والا شخص کسی بھی قیمت پر نہ تو منصف ہوسکتا ہے اور نہ انصاف پرور- اسلام کی روشنی چار سُو پھیلنے کے باوجود بھی اسلام کے اس آفاقی نظام عدل کے مطابق مقدمات کے فیصلے ہوتے رہے- بعد ازاں جب مسلم حکمرانوں نے انصاف کو بھی اپنے گھر کی لونڈی بنا لیا تو پھر مسلمانوں کا زوال بھی شروع ہوگیا۔ اسلام کا نظام عدل بھی بعض دوسرے سنہری اصولوں کی طرح اہل مغرب کے پاس چلا گیا اور ہمارے پاس صرف عدالتیں’ جج’ ریڈر’ ہرکارے، وکیل اور کتابیں رہ گئیں لیکن افسوس کہ ہمارے مطلق العنان حکمرانوں نے محض ا پنے اقتدار کو طول دینے اور مستحکم بنانے کےلئے ان عدالتوں اور کتابوں کا حلیہ بھی کچھ اس طرح بگاڑ دیا ہے کہ اب ان کی شکلیں بھی پہچاننا مشکل ہوگیا ہے-اعلیٰ عدالتوں کے بعض جج صاحبان نے مفاد پرست اور مہم جُو حکمرانوں اور عناصر کی طرف سے وسیع تر قومی وملکی مفادات اور شہریوں کے آئینی وقانونی حقوق کے منافی اقدامات کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے کر انصاف کی دھجیاں بکھیر دیں-اس صورت حال نے مختلف طبقوں کے درمیان عدم مساوات کے ساتھ ساتھ معاشرتی’ سماجی’ نسلی اور لسانی اختلافات کو بھی فروغ دیا جس سے قومی اتحاد ویک جہتی کے رشتوں کو بھی زبردست نقصان پہنچا اور ملک شکست وریخت کا شکار ہوکر رہ گیا- پاکستان آج جس تکلیف دہ صور ت حال سے دوچار ہے اس کی بڑی وجہ بھی انصاف کی عدم فراہمی اور حکمرانوں کا خود کو قانون سے بالاتر سمجھنا ہے-ملک کا حکمران اور بالادست طبقہ یہ بات تسلیم کرنے کے لئے کسی بھی قیمت پر تیار نہیں کہ انصاف کے پیمانوں کو توڑنے والی قومیں ختم ہوجاتی ہیں-ملک قانون کے ذریعے بنتے اور عدالتیں وجج صاحبان اپنے کردار ‘عمل اور انصاف کے ذریعے انہیں قائم رکھنے کا ذریعہ بنتے ہیں- حصول انصاف میں تاخیر انصاف کی عدم فراہمی کے زمرے میں آتی ہے-دنیا میں وہی ملک اور قومیں ترقی وخوشحالی کی معراج پر پہنچتی ہیںجہاں عدالتی نظام مضبوط اور لوگوں کو سستا انصاف ملتا ہو، ایک چپڑاسی سے لے کر صدر مملکت تک عدالت کو جواب دہ ہوتا ہو اور جج کا فرمان حرف آخر تصور کیا جاتا ہو-جب تک ملک میں عدل قائم رہتا ہے اس وقت تک دنیا کی کوئی بھی طاقت اس کے قلعے میں نقب نہیں لگا سکتی لیکن جب قانون کی بالادستی’ آئین کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی دم توڑ دیتی ہے اور حکمران خود کو قانون سے بالاتر سمجھنا شروع کردیتے ہیں تو ملکوں اور قوموں کا زوال شروع ہوجاتا ہے – پاکستان کے کسی علاقے میں چلے جائیں ‘کسی بھی شہری سے پوچھ کر دیکھ لیں کسی کو بھی عدالتوں سے انصاف کی توقع نہیں لوگ عدالتوں میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ ملک میںانصاف کا حصول نہ صرف بہت مہنگا ہو چکا بلکہ اگر کوئی اپنا سب کچھ بیچ کر انصاف کےلئے عدالت میں چلا بھی جائے تو برسوں بلکہ کچھ کیسوں میں تو دہائیوں تک فیصلے نہیں ہوتے مجموعی طور پر عدالتی نظام ناکام ہو چکا۔ آج تک کسی بھی چیف جسٹس نے عدالتی نظام کو تبدیل کرنے عوام کو فوری اورسستا انصاف فراہم کرنے کےلئے ٹھوس اقدامات کو اپنی اولین ترجیح نہیں بنایا-سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی عدالتی نظام میں اصلاحات کی جانب کوئی توجہ نہیں دی بلکہ دوسروں کی طرح ان کی تمام تر توجہ بھی بڑے بڑے سیاسی مقدمات پر ہی مرکوز رہی اور یوں عدلیہ مزید تنازعات کا بھی شکار ہوئی اور عوام کو انصاف دینے کے بنیادی فریضے سے بھی مزید دور ہوتی چلی گئی۔ان کی سربراہی میں بننے والے بنچز کو دیکھتے ہی عوام الناس فوری سیاسی مقدمہ کا فیصلہ سنا دیتے اور بعدازاں ان کا تجزیہ سو فیصد درست ثابت ہوتا – عمر عطا بندیال اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ اب رخصت ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسی پاکستان کے چیف جسٹس بن چکے ہیں اب ان کا امتحان شروع ہو چکا ہے – نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اچھی ساکھ کے مالک ہیں لیکن ان کو تاریخ کیسے دیکھے گی اس کا فیصلہ اس بات پر ہوگا کہ ان کا کردار بحیثیت چیف جسٹس کیا رہتا ہے۔ کیا وہ عمومی طور پر پاکستان کی عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کر پائیں گے؟- ملک میں یہ رائے تقویت پکڑتی جارہی کہ عدلیہ کے اختیارات کی کوئی حدود وقیود نہیں وہ سب کو ہٹا سکتی ہے لیکن اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا – گزشتہ چند سالوں کے دوران عدلیہ نے اپنے ڈھانچے میں پارلیمان اور دیگر آئینی اداروں کی مداخلت کے تمام آئینی اور قانونی دروازے بند کردیئے ہیں تاکہ ریاست کا کوئی ستون ان کے کام میں مداخلت نہ کرسکے دیکھا جائے تو عدلیہ نے اس سفر میں حقیقی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ طاقت حاصل کرلی ہے جس کا فائدہ کے ساتھ ساتھ نقصان بھی ہورہا ہے-آئین میں انتظامیہ مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات انتہائی واضح ہیں تنقید کا راستہ اس وقت کھلتا ہے جب کوئی ریاستی ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے دوسرے ریاستی ادارے کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے اس وقت ملک کو کچھ اسی قسم کی صورت حال کا سامنا ہے جس کو ختم کرنے کےلئے نیک نیتی کے ساتھ اقدامات کی ضرورت ہے-(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے