اسلام فطری مذہب ہے اورپاکستان اسلام کے نام پر معرض وجودمیں آیا۔اسلام کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے لیکن وطن عزیز پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہیں کیا گیا ۔ اسلام نے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے ۔ قرآن مجید فرقان حمید کے نزول میں ©”اقرائ” پڑھ یعنی تعلیم کی ہدایت ہے لیکن وطن عزیز پاکستان میں عملی طور پر زمینی حقائق کے مطابق تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی ،اس لئے وطن عزیز پاکستان کا سنجیدہ طبقہ بہت زیادہ پریشان ہے ۔ چند گزارشات پیش کررہا ہوں۔پاکستان کی شرح خواندگی دیگر ترقی یافتہ ممالک اور چند ایک اسلامی ممالک سے کافی کم تھی۔اس شرح کو بڑھانے کےلئے ارباب اقتدار اور ماہرین تعلیم نے کئی تجاویز پیش کیں،جن میں ایک تجویز ہائر ایجوکیشن میں ترقی یافتہ ممالک کی طرح سمسٹر سسٹم کا اجراءکیا جائے ، اس تجویز کو منظور کرتے ہوئے ملک کی تمام یونیورسٹیوں اور بڑے بڑے کالجز میں سمسٹر سسٹم کا اجراءکردیا گیا۔ سمسٹر سسٹم میں بچے، بچیاں کو اساتذہ کے حوالے کردیا گیا اور اساتذہ کو نمبر لگانے،فیل پاس کرنے،گریڈ دینے کا اختیار دے دیا گیا۔ چونکہ معاشرے میں اسلامی اقدار کا فقدان ہے،دشمن عناصر اور بعض ممالک نہیں چاہتے ہیں کہ پاکستان میں نظام اسلام کا رواج ہو جس میں وہ کامیاب ہوں۔ اساتذہ کرام قابل احترام ہیں لیکن بعض کالجز یا یونیورسٹی میں پڑھانے والے اساتذہ / پروفیسر بہک گئے اور بیرونی عناصر کے آلہ کار بننے لگے ،اس کا نتیجہ بھیانک برآمد ہوا۔ (1) اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں چو کچھ ہوا،وہ اب کسی سے ڈھکی چھپی باتیں نہ رہیں ، اخبارات ، ایکڑانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر زبان عام ہوئیں ،چند ظالموں، بد بختوں اور کم ظرفوں کے باعث پورے معاشرے میں بچیاںاور اساتذہ بدنام ہوئے ،کئی سیاسی لیڈروں کے نام آئے ۔(2) ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی میںبھی شور شرابا ہوا۔ (3)راولپنڈی اور دیگر شہروںکے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ زکریا یونیورسٹی وغیرہ میں یہی کہانیاں شروع ہوگئیں ۔جناب والا!بچیاں معصوم مگر بھیڑیوں اور درندہ صفت پروفیسرو ں کے نرغے میں آگئیں اور میرٹ بڑھانے کے چکر میں اساتذہ کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئیں ۔ ماں باپ شرمندہ ہوئے۔ معاشرہ میں جگ ہنسائی ہوئی مگر جس کی لاٹھی،اس کی بھینس کے مطابق ارباب اقتدار نے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر پابندی لگادی اور نتیجہ تن چار سو خاموشی چھاگئی۔ تحقیقاتی اداروں کے ذریعے تحقیقات کروائیں، آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ بدمعاشی/بے راہ روی ابھی تک جاری و ساری ہے۔حالات کا تقاضا ہے کہ سمسٹر سسٹم کو فی الفور ختم کیا جائے ،ایسا امتحانی سسٹم رائج کیا جائے جس سے طلباءو طالبات بلیک میل نہ ہوسکیں۔ طائرانہ جائزہ لینے سے عیاں ہوجائیگا کہ 1 ۔ میٹرک کا نتیجہ 70 فیصد سے 80فیصد ہوتا ہے ، 20فیصد ناکام ۔ 2 ۔ انٹرمیڈیٹ کا نتیجہ50فی صد سے 60 فیصد ، 40فیصد ناکام ۔ 3 ۔ گریجوایشن کا نتیجہ 30 فیصد سے40فی صد ہوتا ہے، 60فیصد ناکام جبکہ سمسٹر سسٹم میں نتیجہ 100فیصد ہوتا ہے ،اس کی چند ایک وجوہات درج بالا ہیں۔ علاوہ ازیںسمسٹرسسٹم کے خاتمے سے بچے /بچیوں میں محنت کا جذبہ پیدا ہوگا۔اساتذہ کا احترام بحال ہوگا، بدمعاشی ختم ہوگی۔ جناب والا! گذشتہ پانچ سالوں سے زائد عرصہ ہوا ، مختلف محکموں میں سرکاری سطح پر تقرریاں بند ہیں، بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ جہاں ملازمتوں کےلئے درخواستیں مانگی جاتی ہیں، وہاں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں درخواستیں جمع ہوجاتی ہیں ۔ہر کام میرٹ اور صاف وشفاف سسٹم کے ذریعے کیے جائیں اور نوجوانوں کےلئے روزگار کے دروازے کھول دئےے جائیں تو یہ مسائل بھی کم ہو جائینگے ۔ جناب والا! آپ سے استدعا ہے کہ سمسٹر سسٹم ختم ہونے سے بچے /بچیوں کی عصمتیں لٹنا بند ہوجائیگی ۔ معیار تعلیم بڑھانے سے طلباء/ طالبات اپنی پڑھائی کی طرف متوجہ ہونگے اور اس طرح میرٹ میں اضافہ ہوگا۔ جب تقرریاں ہونگی تو میرٹ پر بھرتیاں ہونگی ۔ سمسٹر سسٹم کو ختم کرکے امتحانی سسٹم کو بحال کیا جائے۔اس سے مزید والدین اور طلباءو طالبات کی پریشانیاں ختم ہونے میں مدد ملے گی، اسلامی اقدار پرعمل پیرا ہوکر ہم اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔” قارئین کرام یہی گزارشات ہیں ۔ وطن عزیز پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم درست نہیں ہے ۔ بھارت چاند پر پہنچ گیا اور ہر شعبے میں ترقی کررہا ہے جبکہ ہم ہر شعبے میں کہاں پر کھڑے ہیں؟ترقی یافتہ ممالک نے تعلیم اور انصاف کے باعث ترقی کی ہے جبکہ وطن عزیز پاکستان تعلیم اور انصاف میں کس پوزیشن پر ہے؟وقت کا تقاضا ہے کہ تعلیم اور انصاف کے سسٹم پر توجہ دینی چاہیے اور اس میں انقلابی تبدیلی لانی چاہیے۔ اساتذہ اور طلبہ کےلئے عملی اخلاقی تعلیم بھی ناگزیر ہے۔ ایسا نظام ہوکہ اساتذہ اور طلبہ باعمل اور اچھے شہری ہوں۔ رٹوں کی بجائے عملی تعلیم کا نافذ ضروری ہے تاکہ نوجوان ڈگریوں کے حصول کے بعد بےروزگار نہ ہوں۔ڈگری کے حصول کے بعد نوجوان بے روزگار ہو ں تو پھر ایسی تعلیم پر ضرور سوالات اٹھائیں گے۔سمسٹر سسٹم کو ختم کرکے صاف و شفاف امتحانی نظام لانا چاہیے ۔اساتذہ کرام درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیں جبکہ امتحانات تھرڈ پارٹی کے ذریعے لینے چاہئیں۔ امتحانات کےلئے نیوٹرل یعنی ریٹائرڈ ٹیچرز، افواج پاکستان کے ریٹائرڈ ملازمین اور این جی اوز کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں۔ وطن عزیز پاکستان میں صاف و شفاف امتحانات کے انعقاد سے میرٹ ممکن ہوجائے گا اور صاف شفاف امتحانات صرف اور صرف نیوٹرل سسٹم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔