کالم

”نظریہ ضرورت” سے” نظریہ سہولت ”تک!

''نظریہ ضرورت'' سے'' نظریہ سہولت ''تک!

تحریر: عرفان صدیقی!
سپریم کورٹ کے تیرہ رکنی بینچ میں شامل آٹھ معزز جج صاحبان کے تاریخ ساز فیصلے کی رو سے خواتین اور اقلیتوں کی متنازعہ نشستیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والی سنی اتحاد کونسل کو ملیں گی نہ اسمبلیوں میں موجود دوسری جماعتوں کو ۔ ان نشستوں کے حقدار، مختلف اسمبلیوں میں بیٹھے وہ افراد ہیں جنہوں نے کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ یا نشان پر الیکشن نہیں لڑا، جو آزادانہ حیثیت سے انتخابی اکھاڑے میں اترے، جنہوں نے اسمبلیوں میں آجانے کے بعد بھی پی ٹی آئی سے وابستگی کا اعلان کرتے ہوئے کوئی اجتماعی نظم قائم نہیں کیا، جو آئین و قانون کی دی گئی معیاد کے اندر اندر بہ قائمی ہوش و حواس اور بصد عجز و نیاز اپنی آزادانہ مرضی و خوش دلی سے ایک اور رکن سے جاملے جو انہی کی طرح بطور آزاد اسمبلی میں آیا تھا۔ انہوں نے خود فریبی کے لئے یہ تصور کر لیا کہ ہم سنی اتحاد کونسل نامی سیاسی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔ یہ ہرگز نہ سوچا کہ ہم ایک بے چہرہ اور بے نام ونشان جماعت میں شامل ہونے کے بجائے خود اپنی جماعت تحریک انصاف کا احیا کر کے اس میں کیوں شامل نہیں ہو جاتے؟
جلد ہی پی ۔ٹی ۔آئی اور اس کے وکلا کو بھیا تک غلطی کا احساس ہو گیا لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ قانونی جنگ لڑنے سے پر پہنچ چکے تھے کہ اب یہ مخصوص نشستیں کسی طور پی ٹی آئی کونہیں مل سکتیں۔ سو پی۔ٹی۔ آئی نے ہستی اتحاد کونسل کو ابھارا جو عدالت جا پہنچی۔ پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اتفاق رائے سے قرار دیا کہ یہ شستیں پی ٹی آئی کو مل سکتی ہیں نہ سنی اتحاد کونسل کو۔ لہذا انہیں اسمبلیوں میں موجود دیگر جماعتوں میں ، ان کی تعداد کے مطابق تقسیم کر دیا جائے ۔ سنی اتحاد کونسل، دادرسی کی اپیل لے کر سپریم کورٹ آگئی۔
نوطویل سماعتوں کے بعد تیرہ رکنی بینچ میں شامل آٹھ عالی مرتبت منصفانِ کرام نے معاملے کی نزاکت اور حساسیت کی وجہ سے آئینی وقانونی موشگافیوں میں پڑنے اور بے ثمر دماغ سوزی کرنے کے بجائے ، انصاف کا ایک لامحدود، وسیع تر اور آفاقی تصور اپناتے ہوئے سارے معاملے کو مسند عدل پر بیٹھ کر دیکھنے کے بجائے پی ٹی آئی کے دل کے نرم ترین گوشے میں آسن جمایا، آئین کی سبز کتاب ایک طرف رکھی اور طویل مراقبے کے بعد بحر عدل و انصاف سے یہ گوہر تابدار نکال کر لائے کہ بے شک پی۔ٹی۔ آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے ، بے شک اس کے امیدواروں کے پاس پی ٹی آئی کا ٹکٹ تھا نہ انتخابی نشان، بے شک انہوں نے اسمبلیوں میں آنے کے بعد، آزاد ارکان کے طور پر غیر مشروط حلف اٹھا لیا، بے شک اپنی آزاد حیثیت اور پی ٹی آئی سے وابستگی سے دستکش ہو کر وہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئے ، بے شک وہ کوئی عرضداشت اور فریاد لے کر ہمارے پاس نہیں آئے ، بے شک وہ بھی مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کے آرزومند ہیں، لیکن آئین و قانون کا تقاضا جو بھی ہو ، وسیع تر آفاقی انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ یہ نتیں ایک بڑے گفٹ پیک میں باندھ کر پی ٹی آئی کے حوالے کر دی جائیں۔ بلا شبہ جج صاحبان کے سامنے عدل جہانگیری کی ایسی کئی مثالیں موجود ہوں گی جو ہماری بیاض عدل میں سنہری اوراق کے طور پر موجود ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے، تسلیم کرنا پڑے گا کہ معزز جج صاحبان نے ستر سالہ پرانے نظریہ ضرورت” کو فرسودہ خیال کرتے ہوئے ایک نیا، تازہ دم اور وسیع المقاصد نظر یہ تخلیق کیا ہے جسے” نظریہ سہولت ”کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ نظریہ انصاف کے نگہبانوں کی بالغ نظری اور فکری بلوغت کی دلیل ہے۔ اس نظریے کی اساس زمانہ قبل از مسیح کے پنچائیتی نظام پر رکھی گئی ہے۔ پنچوں کے سامنے آئین کی کوئی کتاب ہوتی ہے نہ قانون کا کوئی کتا بچہ کوئی ضابطہ فوجداری نہ ضابطہ دیوانی ۔ بس چند بڑے بوڑھے کسی گھنے پیڑ کے نیچے چار پائیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔ تھنے کے کش لیتے ، زیر نظر معاملے پر چھلکھلاتی سی نظر ڈالتے اور اپنی صوابدید پر فیصلہ صادر فرما دیتے ہیں۔ یہ فیصلہ جو بھی ہو، جیسا بھی ہو، سب فریقوں پر واجب ولازم ہوتا ہے۔ کچھ کم فہم سے لوگ اکیسویں صدی کے اس روشن و بیدار عہد میں زمانہ قبل از مسیح کے پنچایتی نظام کو ملک و قوم کے لئے نیک شگون خیال نہیں کرتے ۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین و قانون کو بے معنی بنادیا گیا اور نظریہ سہولت کے مطابق مہم جو یا نہ فیصلے صادر ہونے لگے تو مہم جوئی کو فروغ ملے گا اور من مانی پربینی سہولت کاری کسی ایک ادارے کی میراث نہیں رہے گی۔ لیکن میرے خیال میں ہمارے منصفین کرام ہم سے کہیں زیادہ زیرک، کہیں زیادہ معاملہ فہم اور کہیں زیادہ دور اندیش ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نظریہ سہولت کا اطلاق کن نیک چلن جماعتوں اور پاکباز شخصیات پر ہوگا۔ نظریہ ضرورت کن صاحبان تیغ و تبر کے لئے بروئے کار آئے گا اور آئین وقانون کے تازیانے کس کی پشت پر برسائے جائیں گے۔
بحث مباحثے سے ہٹ کر، زندہ و تابندہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ قومی اسمبلی سمیت پانچ اسمبلیوں میں نابود سمجھی جانے والی پی ٹی آئی نظریہ سہولت کی ایک ہی جادوئی پھونک سے، زندہ ہوگئی ہے۔ بقول سینٹر علی ظفر ہمیں اسکی کوئی امید تھی نہ توقع ۔ سپریم کورٹ نے تو ہماری بہت سی غلطیاں بھی درست کر دی ہیں ۔ سینیٹر صاحب کو شاید علم نہیں کہ نظریہ سہولت کیسے کیسے معجزے رقم کر سکتا ہے۔ دنیا بھر میں رائج نظام عدل کی رو سے فیصلہ دینے کے بعد عدالت کا دروازہ بند ہو جاتا ہے لیکن نظر یہ سہولت کے تحت آفٹریل سروس کا اہتمام بھی کیا گیا ہے چناچہ جج صاحبان نے واضح کر دیا ہے کہ اگر کسی مرحلے پر پی ٹی آئی کو فیصلے کے حوالے سے ہماری راہنمائی ، مشکل گشائی اور سہولت کاری کی ضرورت محسوس ہو تو بخوشی رابطہ کر سکتی ہے۔ ادھر پی ٹی ۔ آئی سے جوڑے ارکان پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہے ہیں۔ ہم کون ہیں؟ کیا ہم آزاد ہیں؟ کیا ہم سنی اتحاد کونسل کے رکن ہیں؟ کیا اب ہم پی ٹی آئی میں آگئے ہیں؟ ہم نے تو حلف نامے داخل کر کے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ ان حلف ناموں کا کیا بنے گا؟ کیا کوئی آزاد ر کن حلف نامہ دے کر کسی جماعت میں شامل ہو جانے کے بعد اپنا حلف توڑ کر کسی دوسری جماعت میں شامل ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی عدالت کسی رکن کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ فلاں جماعت سے نکل کر فلاں جماعت میں چلا جائے؟ کہیں ہم پر آئین کے آرٹیکل63-62 کا اطلاق تو نہیں ہو جائے گا ؟
کوئی انہیں سمجھائے کہ دل چھوٹا نہ کریں۔ پنچائیتی فکر پر مبنی نظریہ سہولت آئین وقانون کی زنجیروں سے آزاد ہوتا ہے۔ اگر وہ بیٹھے بٹھائے پی ٹی آئی کو مالا مال کر سکتا ہے تو آنے والی کسی انہونی سے بچانے کی سکت بھی رکھتا ہے۔ مضطر خیر آبادی کا معروف شعر ہے
خدا کی دین کا موسی سے پوچھئیے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے
حضرت موسی تو آگ کی تلاش میں بڑے جتن کر کے کوہ طور کی چوٹی پر پہنچے تھے کہ رب رحیم و کریم نے انہیں نبوت سے نواز دیا۔ پی ٹی آئی تو کہیں گئی بھی نہیں۔ نہ کوئی تلاش، نہ کوئی استدعا بقول فیض نہ سوال وصل نہ عرض غم ، نہ حکایتیں، نہ شکایتیں مگر نظریہ سہولت کی بے پایاں شفقت و محبت نے ماں کی ممتا کی طرح اسے گود میں لیا اور مالا مال کر دیا۔ 1954 سے 2024 تک ، ستر برس میں نظریہ ضرورت ت کی بلندیوں کا نظریہ سہولت کی رفعتوں سے ہم کنار ہو جانا ، ہمارے نظام عدل وانصاف کی قابلِ رشک خوش نصیبی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے