کالم

نومبر میں 9 کشمیریوں کی شہادت

غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی جاری کارروائیوں میں گزشتہ ماہ نومبر میں ایک خاتون سمیت 9کشمیریوں کو شہید کیا۔ شہید ہونے والوں میں سے چارکوجعلی مقابلوں میں یادوران حراست شہید کیاگیا۔اس دوران 12کشمیری شدیدزخمی ہوئے جبکہ 160افرادکو جن میں زیادہ تر حریت کارکن تھے، کالے قوانین پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA)اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون یواے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔بھارتی فوجیوں نے محاصرے اور تلاشی کی 196 کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران ان افراد کوگرفتاراور زخمی کیا۔بھارتی فورسز کے ہاتھوں ہونے والی شہادتوں کی وجہ سے تین بچے یتیم ہو گئے۔بھارتی فورسز نے ان کارروائیوں کے دوران دو گھروں کو بھی تباہ کردیا۔ بی جے پی کی زیرقیادت بھارتی حکومت نے کشمیری عوام کی سیاسی امنگوں کو دبانے کے لیے کالے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے زمینوں، مکانات اور دکانوں سمیت 140جائیدادیں ضبط کرلیں۔5اگست کو بھارت کی طرف سے مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد اور مسلسل فوجی محاصرے کے دوران اب تک 1000سے زائد کشمیری نظربندوں پر کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کیاگیا ہے جن میں کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم ، امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، جمعیت اہلحدیث کے رہنما مولانا مشتاق احمد ویری اور حریت رہنما مسرت عالم بٹ ، آسیہ اندرابی ، غلام احمد گلزار ، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، قاضی یاسر احمد ، مولانا سرجان برکاتی ، یاسین عطائی شامل ہیں۔بھارت کے محکمہ فود اینڈ ڈرگ کنٹرول نے سال 2019 کے دوران میڈیکل اسسٹنٹ کورس مکمل کرنے والے آٹھ ہزار سے زائد کشمیری طلبہ کی رجسٹریشن سے انکار کر دیا ہے۔محکمہ فوڈ اینڈ ڈرگ کنٹرول کاکہنا ہے کہ سینٹرل فارمیسی ایکٹ 1948میں میڈیکل اسسٹنٹ کورس منظور شدہ نہیں ہے اس لیے طلباء کی رجسٹریشن نہیں ہو سکتی۔بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والی دفعہ 370کی تنسیخ کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ریاستی فار میسی ایکٹ ختم جبکہ بھارتی فارمیسی ایکٹ 1948لاگو ہو گیا ہے۔ مذکورہ ایکٹ کے نفاذ سے نہ صرف ادویات کے کاروبار سے وابستہ کشمیریوں کیلئے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں بلکہ سال 2019کے دوران مقبوضہ علاقے کے مختلف کالجوں میں میڈیکل اسسٹنٹ کا کورس مکمل کرنے والے آٹھ ہزار سے زائد کشمیری نوجوانوں کا مستقبل بھی داﺅ پر لگ گیا ہے ۔ گزشتہ برس اگست کے بعد مقبوضہ وادی کشمیر میں پچاس فیصد کے قریب صنعتی یونٹ غیر متحرک ہو چکے ہیںجبکہ مجموعی طو ر پر 26 انڈسٹریل مقامات میں صرف 1500کے قریب صنعتی یونٹ چل رہے ہیں۔ مقبوضہ وادی کے صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ قریباً سات ماہ سے جاری انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی بندشوں کے نتیجے میں وادی میں تجارت کی صورتحال سخت متاثر ہوئی ہے۔ سرینگر سے شائع ہونے والے اردو روزنامے ”روشنی“ کی ایک خبر میں کہا گیا کہ تاجروں کو تفویض کے گئے 2547 پلاٹوں میں سے صرف1444ہی متحرک ہیں۔ کئی پلاٹوں پر بھارتی فورسز نے قبضہ جما رکھا ہے۔ صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس 5 اگست سے مقبوضہ وادی میں جاری مواصلاتی بندش کی وجہ سے صورتحال دن بہ دن مزید ابتر ہو رہی ہے اور جو صنعتی یونٹ اس وقت کام کر رہے ہیں و ہ بھی بند ہونے کے دہانے پر ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ بنکوں کی طرف سے قرضوں کی ادائیگی پر دباﺅ کے نتیجے میں صنعت کار مزید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ ٹیکسوں کی ادائیگی پر دباﺅ اور جرمانہ کے علاوہ نئی صنعتی پالیسی نے بھی انہیں شدید ذہنی کوفت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ معروف تاجر اعجاز شہدار کا کہنا ہے کہ انتظامیہ تاجروں کو درپیش مسائل کے ازالے کے لیے کوئی اقداما ت نہیں کر رہی۔موجودہ حالات میں مودی سرکار کیلئے مقبوضہ کشمیر میں حالات پر قابو پانا ممکن نہیں رہا۔ بھارت کے اندر بھی بغاوت بڑھتی جارہی ہے اور آزادی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم کی پردہ پوشی میں کامیاب ہے مگر بھارت کے اندر ریاستی دہشت گردی پوری دنیا پر عیاں ہورہی ہے۔ مودی سرکار عوام کی توجہ حقائق سے ہٹانے کیلئے پاکستان کیخلاف کوئی بھی مہم جوئی کرسکتی ہے جس کیلئے پاکستان کے گھوڑے ہمہ وقت تیار ہیں۔ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے اندر مخدوش صورتحال سے آگاہ ہے۔ مگر افسوس اسکی طرف سے بھارتی حکومت کے رویوں پر صرف تشویش کا اظہار اور مذمت کی جارہی ہے۔ عملی طور پر بھارتی مظالم کے آ گے بند باندھنے کی جرات کوئی نہیں کررہا۔ ضرورت مودی سرکار کے جنونی اقدام کو لگام دینے کی ہے‘ اسکی خاطر اب عملیت کی طرف آنا ہوگا ورنہ بھارت جس راستے پر چل نکلا ہے‘ وہ سراسر تباہی کی طرف جاتا ہے۔آج بھارت میں بغاوت کی سی کیفیت ہے۔ کشمیر کی طرح بھارت میں بھی مظاہروں میں تیزی آرہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیا جارہا ہے۔اہل کشمیر کی زندگی اجیرن ہے عورتیں اور بچے بھی ان کے ظلم سے محفوظ نہیں یہاں تک کہ انٹرنیٹ سروس بھی منقطع ہے جس کے باعث ان کا دنیا سے کوئی رابطہ نہیں اور کاروباری زندگی بھی مفلو ج ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار کو ایک ہفتے کے اندر انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کا حکم دیا تھا یہ ایک اہم اقدام ہے ۔ کورٹ نے واضح کیا کہ انٹرنیٹ سروس بند کرنا آزادی اظہار رائے کے منافی ہے اور کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے