کالم

نہج البلاغہ سے کچھ روشنی

اسلام کے بطل جلےل اور تارےخ کے نامور سپوت حضرت علی ؑ کو قدرت نے اتنے امتےازات اور اعزازات سے نوازا ہے کہ ان مےں سے کوئی امتےاز اور اعزاز دنےا بھر کی ناموری اور آخرت کی سرخروئی کےلئے کافی ہے ۔آپؑ کی محبت کو زبان نبوت نے اےمان اور آپ کے ساتھ عداوت کو نفاق قراردےا ۔علیؑ جن کے منہ سے نکلے ہوئے اےک جملے نے دنےا والوں کو پےغمبرانہ سےاست کا مزاج سمجھا دےا کہ ”اگر دےن مےرے سامنے نہ ہوتا تو مےں پورے عرب کا سب سے بڑا سےاستدان ہوتا۔“جن کے پورے خاندان کےلئے شہادت باعث سعادت رہی ۔جن کو ہمےشہ دنےا نے مسجد کا نمازی اور مےدان کا غازی دےکھا ،جو عمر بھر جو کی روٹی کھا کر شکر خدا بجا لاتا اور رسول اکرم کے ساتھ عہد وفا نبھاتا رہا ۔جس شخص کی پرورش و پرواخت آغوش نبی مےں ہوئی ،جس کی جوانی کے آئےنے مےں عکس رسول جھلکا ہو ،جس کی سرگرمےوں کا دائرہ خوشنودی رب ہو ،جس کی نگاہ عقابی ،،جس کا ذہن آفاقی ،جس کی سوچ کائناتی اور جس کا کردار ملکوتی ہو وہ کےوں نہ تارےخ کےلئے قابل رشک بنے ۔جس علی المرتضیٰ کو دنےا کی کسی ےونےورسٹی کی ڈگری نہےں ملی ۔اس کے منہ سے نکلا ہوا اےک اےک لفظ دنےا بھر کی جامعات کے سرماےہ علمی پر بھاری ہے ۔جس کے سر پر کسی درسگاہ کی فراغت کی دستار فضےلت نہےں باندھی گئی ۔زمانے بھر کے مدرسوں کے صدر المدرسےن اس کے سامنے ہاتھ باندھے نظر آتے ہےں ۔نہج البلاغہ کو پڑھ کر قرآن مجےد کے کلام الٰہی ہونے اور اور اس کے اعجاز کا انسان قائل ہو جاتا ہے کہ اےک بندے کے زورکلام کا ےہ عالم ہے تو خالق کائنات کے کلام کی معجز نمائی کا کےا رنگ ہو گا ۔اس مےں آپؑ کے چھوٹے چھوٹے جملہ رموز کائنات اور سائنسی علوم کے انکشافات بڑی بلاغت کے ساتھ بےان ہوئے ہےں ۔علم و دانش پر مبنی آپ کے ارشادات اہل علم و دانش کو آج بھی ورطہ حےرت مےں ڈال دےتے ہےں ۔جب سائنسی علوم کی اےجاد نہےں ہوئی تھی ،کوئی تجربہ گاہ اور رصد گاہ بھی نہےں تھی ،کسی طرح کا تجربہ بھی نہےں ہوا تھا اس زمانہ مےں حضرت علیؑ نے کہا تھا ”اس انسان پر حےرت کرو جو چربی سے دےکھتا ہے ،گوشت سے بولتا ہے ،ہڈےوں سے سنتا ہے اور شگاف سے سانس لےتا ہے ۔“ آج عصر حاضر مےں سائنس نے تحقےقات کر کے ان حقےقتوں کا اعتراف کےا ہے ۔معاشےات کے اس ترقی ےافتہ دور مےں آپ کا ےہ مختصر سا جملہ علم اقتصادےات کی کتنی گچھےاں سلجھا رہا ہے کہ ” کنجوس کے ہاتھ کی اشرفی پتھر کے برابر ہے ۔”نظام زر کا راز اس امر مےں پوشےدہ ہے کہ کرنسی اگر سرکولےشن مےں رہے تو سماج کےلئے مفےد ہے ورنہ منجمد سکہ معےشت و تجارت کی راہ کا پتھر ہے ۔باب العلم کے منہ سے نکلا ہوا ےہ جملہ عالمی سےاستدانوں کےلئے درس عبرت ہے کہ ” حاکموں کی سختےاں ملک خالی کرا دےتی ہےں اور ظلم و ستم مظلوموں کو جنگ ےا بغاوت پر مجبور کر دےتا ہے ۔“ عصر حاضر اےسی کئی مثالےں دامن تارےخ پر ثبت ہےں ۔آپؑ نے زوالوجی کے جو کلئےے پےش کئے تھے کہ ” وہ جانور جو انڈے دےتے ہےں ان کے کان اندر ہوتے ہےں اور وہ جانور بچے دےتے ہےں ان کے کان باہر ہوتے ہےں “ےا ےہ کہ ” وہ جانور جو چگ کر کھاتے ہےں اپنے بچوں کو دانہ بھراتے ہےں اور وہ جانور جو چبا کر (جگالی کر کے ) کھاتے ہےں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہےں ۔“ اس وقت علم حےوانات کی حقےقتوں کا کےا اندازہ ہوا ہو گا ۔آج کے اس تحقےق ےافتہ دور مےں حضرت علیؑ کے منہ سے نکلے ہوئے ان انکشافات کی جو اہمےت اور افادےت ہے وہ اس زمانہ مےں ہر گز نہےں تھی جس زمانہ مےں ےہ بات کہی گئی ۔نہج البلاغہ کے چوتھے حصے مےں حضرت علیؑ کے مختصر ارشادات ،بعض سوالوں کے جوابات اور انتہائی حکمت آمےز جملے درج ہےں جو نہ صرف حکمت و دانائی کا صحےفہ ہےں بلکہ ادب و انشا کا بھی شاہکار ہےں ۔اس گل صد برگ کی کچھ پتےاں حاضر ہےں تاکہ مشام جان کو معطر کےا جا سکے ۔حضرت علیؑ نے اےک موقع پر فرماےا ”جب دنےا کسی پر مہربان ہوتی ہے تو دوسروں کی خوبےاں بھی اسے مستعار دے دےتی ہے اور جب پےٹھ پھےر لے تو اس کی اپنی خوبےاں بھی چھےن لےتی ہے ۔“ اےک جگہ ارشاد ہوتا ہے ”سب سے نادار شخص وہ ہے جو کسی کو دوست نہ بنا سکے اور اس بھی زےادہ تہی دست وہ ہے جو دوستوں کو پا کر انہےں کھو دے ۔“ اےک اور مقام پر ملاحظہ ہو ”جسے اپنے رد کر دےتے ہےں اسے غےر اپنا لےتے ہےں ۔“ فرماتے ہےں ”جس کو اس کا اچھا عمل آگے نہےں بڑھا سکا اسے نسب کوئی عزت نہےں دے سکے گا “۔ےہ رنگ بھی دےکھنے کے قابل ہے ”اے اولاد آدم ؑ جب تو دےکھے کہ اﷲ کرےم تم پر پے در پے نعمتےں نازل کر رہا ہے اور تو اس کی نافرمانی پر کمر بستہ ہے تو اس لمحے سے خوف کھاﺅ“ (کہ کہےں ےہ آزمائش کا زمانہ نہ ہو)۔حقےقت زہد کے بارے مےں فرماتے ہےں ”زہد کا افضل مرتبہ زہد کو چھپانا ہے ،اصل غنا آرزوﺅں کو ترک کرنے کا نام ہے “۔اےک اور حقےقت کا اظہار ےوں فرماتے ہےں ” اس وقت سے پناہ مانگوجب شرےف انسان بھوکا ہو اور کمےنہ صاحب دولت بن جائے “۔دل کا احوال ےوں سناتے ہےں ” دل اےک اجنبی پرندہ ہے وہ صرف محبت کی شاخ پر بےٹھتا ہے “۔ رسم دنےا بےان فرماتے ہےں ” تمہارے عےب اس وقت تک ڈھکے رہےں گے جب تک دنےا تم پر مہربان ہے ۔“ ےگانگی و بےگانگی کو ےوں واضع فرماتے ہےں ” آدمی مالدار ہو تو پردےس مےں بھی اپنا لگتا ہے اور نادار ہو تو اپنے وطن مےں بھی اجنبی بن کر رہ جاتا ہے “۔ خےر خواہی کا اصل مفہوم بےان کرتے ہوئے فرماےا ” جو شخص تمہےں نتائج بد سے ڈرانے والا ہے دراصل وہی تمہارا خےر خواہ ہے “۔ کم ظرف سے معاملہ آن پڑے تو کےا کرنا چاہےے ،آپ فرماتے ہےں ”ضرورت کا پورا نہ ہونا اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ کسی کم ظرف سے کچھ طلب کےا جائے ۔“ ےہ انداز بھی لائق توجہ ہے ۔” تھوڑا دےنے سے کےا شرمانا بہر حال نہ دےنے سے تو بہتر ہے ۔“ حضرت علیؑ کا ےہ فرمان بھی آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔”دو طرح کے عمل کا معاملہ بھی عجےب ہے کہ اےک وہ عمل ہے جس کی لذت تو جاتی رہتی ہے مگر پھٹکار باقی رہ جاتی ہے اور دوسرا وہ جس کی زحمت تو آخر ختم ہو جاتی ہے لےکن اجر محفوظ رہ جاتا ہے ۔“ حرےصانہ نفسےات کے متعلق فرماتے ہےں ”طمع مستقل غلامی ہے “۔اےک اور عقدہ کشا فرمان ”ظالم کےلئے وہ لمحے بڑے شدےد ہوتے ہےں جب مظلوم کو اس پر فوقےت حاصل ہو جائے ۔“ حقےقی صاحب علم کون ہے ۔آپ نے فرماےا ”اصل عالم اور فقےہہ وہ ہے جو لوگوں کو اﷲ کی رحمت سے ماےوس اور اس کی عنائت سے محروم نہ کرے اور اﷲ کی خفےہ تدبےروں سے بے پرواہ نہ ہونے دے “۔اےک شخص نے آپؑ سے سوال کےا ”اﷲ تعالیٰ اتنی بڑی مخلوق کا حساب کےسے لے سکے گا ؟ آپؑ نے فرماےا جےسے وہ انہےں رزق دے رہا ہے ۔پھر پوچھا بھلا وہ کےسے حساب لے گا جبکہ لوگ اسے نہےں دےکھتے ۔آپؑ نے فرماےا جےسے وہ رزق عطا فرما رہا ہے جبکہ لوگ اسے نہےں دےکھ پاتے “۔ ےہ لہجہ بھی باب مدےنتہ العلم کےلئے خاص ہے ۔”قےامت کے دن سب سے زےادہ حسرت اس شخص کےلئے ہو گی جس نے ناجائز طرےقوں سے مال کماےا اور اس کا وارث اےسا شخص بنا دےا جس نے وہ سارا مال راہ خدا مےں خرچ کر دےا ،اب مال کمانے والا جہنم رسےد ہو گا اور خرچ کرنے والا جنت کا حقدار ٹھہرے گا ۔“ ےہ رہےں گلشن علم علیؑ کی چند کلےاں جن کی مہک سے وادی قلب و روح مہک اٹھی ہے ۔آپؑ کا ےہ فرمان کہ مےں علم و حکمت کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے ۔اس فرمان کی صداقت مےں کےا شبہ ہے کہ فی الواقعہ صدےوں نے اس دروازے کی درےوزہ گری کی ہے اور ابھی کئی زمانے قطار بنائے کھڑے ہےں کہ کب موقع ملے اور وہ علم کی اس چوکھٹ پر اپنا سلام نےاز پےش کر سکےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے